Tadabbur-e-Quran - Al-Hadid : 16
اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ١ۙ وَ لَا یَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ
اَلَمْ يَاْنِ : کیا نہیں وقت آیا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے ہیں اَنْ تَخْشَعَ : کہ جھک جائیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل لِذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کے ذکر کے لیے وَمَا نَزَلَ : اور جو کچھ اترا مِنَ الْحَقِّ ۙ : حق میں سے وَلَا يَكُوْنُوْا : اور نہ وہ ہوں كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح اُوْتُوا الْكِتٰبَ : جو دیئے گئے کتاب مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل فَطَالَ : تو لمبی ہوگئی عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ : ان پر مدت فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ۭ : تو سخت ہوگئے ان کے دل وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ : اور بہت سے ان میں سے فٰسِقُوْنَ : نافرمان ہیں
(کیا ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاددہانی اور اس حق کے آگے جھک جائیں جو نازل ہوچکا ہے اور ان لوگوں کی طرح نہ بن کے رہ جائیں جن کو اس سے پہلے کتاب دی گئی پس ان پر طویل مدت گزر گئی، بالآخر ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے بہتیرے نافرمان ہیں۔
4۔ آگے آیات 16۔ 24 کا مضمون آگے کی آیات میں خطاب کا رخ ان منافقین ہی کی طرف ہے جن سے اوپر کے پیرے میں خطاب ہے۔ ان کو پہلے تو اس تذبذب کی روش کے انجام بد سے ڈرایا ہے کہ رسول ﷺ کی تائید میں اتنی واضح نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی اگر تمہارا تذبذب دور نہیں ہوا تو بالآخر تمہارے دلوں پر بھی اسی طرح کی قساوت چھا جائے گی جس طرح کی قساوت یہود پر چھا گئی تھی جس کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر کردی۔ اس کے بعد ان کو کچھ ابھارا ہے کہ موجود حالات سے ہراساں نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت و رحمت پر بھروسہ رکھو۔ جس اللہ کی یہ شان دیکھتے ہو کہ وہ اس سر زمین کو مردہ ہوجانے کے بعد دوبارہ زندہ کردیتا ہے اس سے بعید نہیں ہے کہ وہ اس دعوت حق کو اتنا فروغ دے کہ یہاں کفر کا کوئی نشان باقی نہ رہ جائے۔ اسی ذیل میں ان کو یہ اطمینان بھی دلایا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے خسارے میں رہنے والے نہیں ہیں بلکہ ایک کا ستر پائیں گے اور یہی راستہ ہے اس امت کے صدیقین اور شہداء میں داخل ہونے کا۔ پھر اس دنیا کی ان چیزوں کی بےثباتی و بےحقیقی کی تصویر کھینچی ہے جن کے عشق میں پھنس کر لوگ آسمانوں اور زمین کے برابر کی اس ابدی بادشاہی کو بھول بیٹھے ہیں جس کو وہ چاہیں تو اپنے جمع کردہ خزف ریزوں کے عوض خرید سکتے ہیں۔ آخر میں اس نکتہ کی طرف رہنمائی فرمائی ہے کہ اس دنیا میں یسرا اور عسر، دکھ اور سکھ، فقر اور غنا انسان کی اپنی تدبیروں پر منحصر نہیں ہے بلکہ اس کا انحصار اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی تقدیر پر ہے۔ اس وجہ سے نہ تو انسان کے لیے یہ جائز ہے کہ فراخی حاصل ہو تو اس کو اپنی تدبیر کا کرشمہ سمجھ کر اس پر اترانے اور اکڑنے لگ جائے اور نہ یہ جائز ہے کہ کوئی ابتلاء پیش آجائے تو مایوس و دل شکستہ ہو کر واویلا شروع کر دے بلکہ وہ نعمت میں شکر اور مصیبت میں صبر کی روش اختیار کرے اور دونوں صورتوں میں اپنے رب پر اپنے دل کو جمائے رکھے۔ اس روشنی میں آیات کی تلاوت کیجئے۔ 5۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت (الم یان للذین امنوا ان تخشع قلوبھم لذکر اللہ وما نزل من الحق ولا یکونو گا لذین اوتو الکتب من قبل فطال علیھم الامد فقست قلوبھم وکثیر منھم فسقون) (16)۔ (منافقین کے سامنے ایمان کے تقاضوں کی وضاحت)۔ للذین امنوا سے مراد جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، وہی منافقین ہیں جن کا رویہ زیر بحث ہے، چونکہ وہ ایمان کے مدعی تھی اس وجہ سے ان کے دعوے کے مطابق ان کا ذکر للذین امنوا کی صفت سے کیا تاکہ وہ ان مطالبات پر سنجیدگی سے غور کریں جو اس دعوے ایمان کے تعلق سے ان پر عائد ہوتے ہیں اور اگر ان کے اندر اس دعوے کی کچھ لاج ہے تو اس کا حق ادا کریں۔ (الم یان) کے اسلوب بیان سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ سورة اس زمانے میں نازل ہوئی ہے جب دعوت حق کی صداقت و حقانیت اور اس کے غلبہ کے اتنے آثار و شواہد نمایاں ہوچکے تھے کہ جن کے اندر کچھ شکوک و شبہات تھے وہ دور ہوجانے چاہیے تھے۔ اگر اتنے آثار آیکھ لینے کے بعد بھی ان کے شبہات علیٰ جالہ باقی ہی رہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اس وقت تک شرح صدر کے ساتھ اسلام کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھے جب تک وہ اس کے ہر دعوے کی صداقت اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔ اس طرح کا ایمان اللہ تعالیٰ کے ہاں معتبر نہیں ہے اس وجہ سے ان لوگوں کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر اب بھی وہ شبہات ہی میں مبتلا رہے تو ان کا وہی حال ہوگا جو یہود کا ہوا۔ وہ بھی برابر شبہات میں مبتلا رہے اور اسی حالت میں ان پر ایک مدت گزر گئی بالآخر ان کے دل سخت ہوگئے۔ یہاں تک کہ جن کی روئیدگی کی صلاحیت ہی ان کے اندر سے ختم ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر کردی جس کی تفصیل سورة بقرہ کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔ (ایک سنت الٰہی)۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ کسی امر حق میں شبہ و تردد کا پیدا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے اور نہ کچھ عرصے تک اس کا باقی رہنا کوئی قابل ملامت چیز ہے۔ ایک نیک نیت آدمی کے اندر بھی یہ حالت پیدا ہو سکتی ہے لیکن کوئی شخص اگر ان شبہات کی آڑ لے کر اپنے اندر حق کی آواز کو برابر دباتا ہی رہے اور اس کو باطل سے چمٹے رہنے کے لیے ایک بہانہ بنا لے تو سنت الٰہی کے مطابق ایسا شخص قبول حق کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کی طرف سے حق کی ناقدری کو زیادہ عرصے تک گوارا نہیں فرماتا۔ (شک کی بیماری مہلک ہے)۔ (ان تخشع قلوبھم لذکر اللہ وما نزل من الحق) میں (ذکر اللہ) اور (حق) سے مراد تو قرآن مجید ہی ہے لیکن قرآن کے دو خاص پہلوئوں کی طرف توجہ دلانے کے لیے دو الگ الگ الفظ استعمال ہوئے ہیں۔ (ذکر اللہ) سے مراد وہ تنبیہات ہیں جو ان خطرات و مہالک سے آگاہ کرنے کے لیے نازل ہوئی ہیں جن سے ان لوگوں کو دنیا اور آخرت دونوں میں لازماً دو چار ہونا پڑے گا جو حق سے اعراض کے لیے بہانے ڈھونڈتے رہیں گے اور حق سے وہ کلیات مراد ہیں جو قرآن نے از سر نو باطل سے الگ کر کے اجاگر کیے فرمایا کہ ان کی تائید میں اتنے شواہد و قرائن ظاہر ہوچکے ہیں کہ چاہیے تھا کہ لوگوں کے دل ان کے آگے سر فگندہ ہوجاتے۔ اگر اب بھی نہیں ہوئے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں جس میں یہود مبتلا ہوئے۔ یہود کے متعلق پیچھے، مختلف سورتوں میں تفصیل سے یہ بات گزر چکی ہے کہ وہ شک کے ایسے مریض تھے کہ اپنے پیغمبر کی موجودگی میں قدم قدم پر، اس کے معجزات اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں کو دیکھتے ہوئے برابر بےیقینی اور تردد میں مبتلا رہے۔ یہاں تک کہ ان کی اسی بیماری نے ان کو تورات سے محروم کردیا اور اسی کی پاداش میں ان کی اکثریت قرآن سے بھی محروم رہی۔ یہاں اسی روش بد اور اس کے انجام سے قرآن نے ان منافقین کو متنبہ کیا ہے کہ تم بھی یہود ہی کی طرح، اپنے رسول کی موجودگی میں بےیقینی کے مرض میں مبتلا ہو، ایسا نہ ہو کہ یہ مرض تمہارے لیے بھی اسی طرح مہلک بن جائے جس طرح ان کے لیے مہلک بنا۔
Top