Tadabbur-e-Quran - Al-Haaqqa : 20
اِنِّیْ ظَنَنْتُ اَنِّیْ مُلٰقٍ حِسَابِیَهْۚ
اِنِّىْ : بیشک میں ظَنَنْتُ : میں یقین رکھتا تھا اَنِّىْ : کہ بیشک میں مُلٰقٍ : ملاقات کرنے والا ہوں حِسَابِيَهْ : اپنے حساب سے
میں نے گمان رکھا کہ مجھے اپنے حساب سے دوچار ہونا ہے۔
ساتھ ہی وہ اپنی اس عظیم کامیابی کا سبب بھی بتائے گا کہ میں نے ہمیشہ اپنے دل میں یہ گمان رکھا کہ مجھے ایک دن اپنے زندگی کے حساب کتاب سے دوچار ہونا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اسی گمان نے میری حفاظت کی اور میں ایک ایسا اعمال نامہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا جس کو دوسروں کے سامنے نہایت خوشی کے ساتھ پیش کر سکوں۔ جزا اور سزا کو ماننے کے لیے ظن غالب کافی ہے: ’ظَنٌّ‘ یہاں ظن غالب کے مفہوم میں ہے۔ آفاق و انفس اور انبیاء و حکماء کی تعلیم میں جزا و سزا کے ایسے دلائل موجود ہیں کہ آدمی بالکل ہی بلید اور لاابالی نہ ہو تو اس کا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ زندگی یوں ہی نہیں تمام ہو جائے گی بلکہ ایک دن جزا اور سزا سے سابقہ پیش آنا بھی لازمی ہے۔ اگرچہ اس بات پر اس کو اس طرح کا یقین تو نہیں ہوتا جو آنکھوں دیکھی چیز پر ہوا کرتا ہے لیکن ایسا ظن غالب ضرور ہوتا ہے جس کے بعد وہ خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ اس کو نظر انداز کر کے زندگی گزارے اور عاقبت کی کوئی پروا نہ کرے۔ اس ظن غالب سے آخرت پر جو ایمان پیدا ہوتا ہے وہ بالتدریج ایمانی تجربات سے مضبوط ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ درجہ بدرجہ یقین کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ اگر آدمی اس ظن غالب کو نظر انداز کر کے اس انتظار میں رہے کہ جب اس کو آخرت کا یقین ہو جائے گا تب اس کو مانے گا تو یہ انتظار اسی دن ختم ہو گا جس دن وہ سب کچھ آنکھوں سے دیکھ لے گا اور اس دن کا ایمان اس کے لیے بالکل بے سود ہو گا۔
Top