Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 14
قَالَ اَنْظِرْنِیْۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ
قَالَ : وہ بولا اَنْظِرْنِيْٓ : مجھے مہلت دے اِلٰي يَوْمِ : اس دن تک يُبْعَثُوْنَ : اٹھائے جائیں گے
بولا اس دن تک کے لیے تو مجھے مہلت دے دے جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے
قَالَ اَنْظِرْنِيْٓ اِلٰي يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ قَالَ اِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِيْنَ۔ انسان کے لیے اصل معرکہ امتحان : ابلیس کو چونکہ ذلت کے ساتھ جنت سے نکل جانے کا حکم ہوا اس وجہ سے اس کو گمان ہوا کہ اب اس کے لیے سعی و عمل کی کوئی مہلت باقی نہیں رہی ہے۔ اس اس نے خدا سے درخواست کی کہ اسے مہلت عطا کی جائے کہ وہ ثابت کرسکے کہ انسان فی الواقع اس شرف کا سزا وار نہیں ہے جو اسے بخشا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ مہلت دے دی۔ یہی وہ موڑ ہے جہاں سے انسان کی زندگی کارزار امتحان میں داخل ہوتی ہے۔ شیطان نے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے، اپنا پورا زور اس بات کے لیے لگانے کا منصوبہ بنایا کہ وہ انسان کو نااہل و نالائق ثابت کردے اور انسان کی سعادت و کامرانی اس بات میں ٹھہری کہ وہ یہ ثابت کرے کہ فی الواقع وہ اس کا اہل ہے۔ کامیابی و ناکامی کا فیصلہ قیامت پر : یہ مہلت سعی و عمل چونکہ انسان کو موت ہی تک حاصل ہے اس وجہ سے شیطان کو بھی ورغلانے اور بہکانے کا موقع صرف انسان کی موت ہی تک ہے۔ مرجانے کے بعد جس طرح انسان پر سعی و عمل کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اسی طرح شیطان کے لیے اس پر زور آزمائی کی راہ بھی مسدود ہوجاتی ہے لیکن یہ فیصلہ کہ کون جیتا کون ہارا، قیامت کے دن ہی ہونا ہے اس وجہ سے ابلیس نے مہلت الی یوم یبعثون مانگی جس کے معنی یہ ہوئے کہ اس نے اپنی یہ درخواست منظور کرا کے انسان کے شرف و مزیت کے معاملہ کا فیصلہ قیامت پر ملتوی کرایا۔ اب وہیں یہ فیصلہ ہوگا کہ انسان اس تاج زریں کا سزا وار ہے یا نہیں ؟ اگر وہ سزا وار ٹھہرا تو اس کے لیے جنت کی ابدی نعمتیں ہیں ونہ جس طرح شیطان دوزخ میں ہوگا اسی طرح انسان بھی دوزخ میں اپنا ٹھکانا بنائے گا۔
Top