Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 51
الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَهْوًا وَّ لَعِبًا وَّ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا١ۚ فَالْیَوْمَ نَنْسٰىهُمْ كَمَا نَسُوْا لِقَآءَ یَوْمِهِمْ هٰذَا١ۙ وَ مَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ
الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اتَّخَذُوْا : انہوں نے بنالیا دِيْنَهُمْ : اپنا دین لَهْوًا : کھیل وَّلَعِبًا : اور کود وَّغَرَّتْهُمُ : اور انہیں دھوکہ میں ڈالدیا الْحَيٰوةُ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا فَالْيَوْمَ : پس آج نَنْسٰىهُمْ : ہم انہیں بھلادینگے كَمَا نَسُوْا : جیسے انہوں نے بھلایا لِقَآءَ : ملنا يَوْمِهِمْ : ان کا دن ھٰذَا : یہ۔ اس وَ : اور مَا كَانُوْا : جیسے۔ تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں سے يَجْحَدُوْنَ : وہ انکار کرتے تھے
ان کے لیے جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنایا اور جن کو دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈالے رکھا، پس آج ہم ان کو نظر انداز کریں گے جس طرح انہوں نے اپنے اس دن کی ملاقات کو بھلائے رکھا اور جیسا کہ وہ ہماری آیات کا انکار کرتے رہے
الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَهُمْ لَهْوًا وَّلَعِبًا وَّغَرَّتْهُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا ۚ فَالْيَوْمَ نَنْسٰىهُمْ كَمَا نَسُوْا لِقَاۗءَ يَوْمِهِمْ ھٰذَا ۙ وَمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَجْحَدُوْنَ۔ ایک برمحل تضمین۔ یہ آیت بطور تضمین ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کے جواب حَرَّمَهُمَا عَلَي الْكٰفِرِيْنَ کی وضاحت اپنی طرف سے فرما دی کہ کافرین سے کون لوگ مراد ہیں۔ اس تضمین سے کلام بالکل مطابق حال ہوگیا۔ گویا قریش پر یہ بات واضح کردی گئی کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ صرف دوسروں کی حکایت ہے بلکہ یہ ان کی بھی حکایت ہے۔ اس قسم کی تضمین کی مثال اوپر آیت 45 میں بھی گزر چکی ہے۔ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَهُمْ لَهْوًا وَّلَعِبًا، یعنی اللہ نے جو چیز ان پر دین کی حیثیت سے اتاری اس کو انہوں نے ہنسی مسخری میں اڑایا، ہر چیز کا ایک محل و مقام ہوتا ہے۔ دین اس لیے آتا ہے کہ وہ زندگی کے ہر پہلو میں صحیح نقطہ نظر متعین کرے تاکہ لوگ ہلاکت کے گڑھے میں گرنے کی بجائے فلاح وسعادت کی راہ اختیار کریں۔ لیکن جن لوگوں نے زندگی کو بازیچہ اطفال سمجھ رکھا ہے وہ اپنی خواہشات کے پیچھے ایسے اندھے ہوجاتے ہیں کہ وہ خواہشات کے خلاف سنجیدہ سے سنجیدہ حقیقت کو بھی مذاق تصور کرتے اور مذاق ہی میں اس کو اڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بازی بازی باریش بابا ہم بازی۔rnَغَرَّتْهُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا، یہ اس لا ابالیانہ طرز عمل کی وجہ بیان ہوئی ہے کہ وہ کیوں زندگی کی نہایت سنجیدہ حقیقتوں سے اندھے بنے رہے۔ فرمایا کہ دنیا کی زندگی نے ان کو دھوکے میں رکھا۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ کھا رہے ہیں، پی رہے ہیں، عیش کر رہے ہیں، دندنا رہے ہیں اور کوئی باز پرس ان سے نہیں ہو رہی ہے اس سے وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ بس دنیا اسی لیے پیدا ہوئی ہے۔ اگر کسی اللہ کے بندے نے ان کو توجہ دلائی کہ اس کے بعد ایک روز حساب کتاب بھی آنے والا ہے تو اس کے لتے لے ڈالے کہ یہ دیوانہ اور خبطی ہے۔ ہماری آزادی اور ہمارے عیش کو مکدر کر رہا ہے۔ فَالْيَوْمَ نَنْسٰىهُمْ كَمَا نَسُوْا لِقَاۗءَ يَوْمِهِمْ ھٰذَا، یہاں ننساہم نظر انداز کردینے کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور یہ فعل کا استعمال اس اسلوب پر ہے جس کو دوسری جگہ ہم واضح کرچکے ہیں کہ استعمال بظاہر فعل ہوتا ہے لیکن مقصود اس سے اس کا لازم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو بھولتا نہیں۔ یہ بھولنا نظر انداز کرنے کی تعبیر ہے۔ قرآن کے نظائر سے واضح ہوتا ہے کہ ‘ لقاء ’ کہیں اپنے مفعول کی طرف مضاف ہوا ہے، کہیں اپنے ظرف کی طرف، لیکن مدعا دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے۔ یعنی رب سے ملاقات آخرت میں، انہوں نے اپنے اس دن کی ملاقات کو بھلائے رکھا، یعنی اس دن میں اپنے رب کی ملاقات کو بھلائے رکھا۔ وَمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَجْحَدُوْنَ ، یہ جملہ چونکہ اوپر والے جملے ہی پر عطف ہے اس وجہ سے یہ در اصل کما کانوا کے مفہوم میں ہے، کما کے اندر تشبیہ و تمثیل کے ساتھ ساتھ سببیت کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے اس وجہ سے اگر اس کا ترجمہ یہ کیا جائے کہ ‘ اور بسبب اس کے کہ وہ ہماری آیات کا انکار کرتے رہے ’ تو یہ ترجمہ بالکل صحیح ہوگا
Top