Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 83
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ١ۖ٘ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ
فَاَنْجَيْنٰهُ : ہم نے نجات دی اس کو وَاَهْلَهٗٓ : اور اس کے گھر والے اِلَّا : مگر امْرَاَتَهٗ : اس کی بیوی كَانَتْ : وہ تھی مِنَ : سے الْغٰبِرِيْنَ : پیچھے رہنے والے
تو ہم نے اس کو اور اس کے گھر والوں کو، اس کی بیوی کے سوا جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے بنی نجات دی
فَاَنْجَيْنٰهُ وَاَهْلَهٗٓ اِلَّا امْرَاَتَهٗ ڮ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِيْنَ۔ اوپر اِنَّهُمْ اُنَاسٌ يَّتَطَهَّرُوْنَ سے یہ تو مترشح ہوتا ہے کہ کچھ لوگ تھے جو حضرت لوط ؑ پر ایمان لائے تھے لیکن اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اہل و عیال کے سوا کوئی اور ان پر ایمان لانے والا نہ بنا۔ اگر کچھ لوگ ایمان لائے ہوتے تو نجات پانے والوں میں ان کا ذکر بھی ہوتا۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ ایک قلیل گروہ، جیسا کہ لفظ اناس سے ظاہر ہوتا ہے، ان پر ایمان تو لایا لیکن یہ لوگ سب ان کے متعلقین ہی میں سے تھے اس وجہ سے قرآن نے ان کو لفظ ‘ اھل ’ ہی سے تعبیر فرمایا۔ اس ‘ اھل ’ میں سے بھی حضرت لوط ؑ کی بیوی خارج ہوگئی۔ اس کا سبب ظاہر ہے کہ اس کی طبیعت کا فساد ہوا۔ اس فساد طبیعت کو اس بات سے بھی تقویت ملی ہوگی کہ اس کا تعلق، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، اسی ناہنجار قوم سے تھا۔ خاندان اور قوم کی عصبیت اکثر حق کی راہ میں رکاوٹ بنی ہے۔ اس زنجیر کو توڑنے میں صرف وہی لوگ کامیاب ہوئے ہیں جن کے اندر خدا کی لگن اتنی شدید ہوئی کہ وہ ہر مخالف جذبہ پر غالب آگئی۔ قرآن نے اس صورت کا ذکر خاص طور پر اس حقیقت کو نمایاں کرنے کے لیے فرمایا کہ نجات کی راہ صرف ان کے لیے کھلتی ہے جو خود اس کے طالب ہوں اور دوسری چاہتوں کو جو اس میں روک نہیں قربان کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اگر یہ عشق حق اور اس کے لیے قربانی کا یہ جذبہ کسی میں نہ ہو تو ایک پیغمبر کی بیوی، ایک پیغمبر کا بیٹا، ایک پیغمبر کا باپ یا چچا ہونا بھی آدی کے لیے ذرا نافع نہیں ہوتا۔ حضرت لوط ؑ کی بیوی، حضرت نوح کے بیٹے، حضرت ابراہیم کے باپ اور سیدنا سول اللہ ﷺ کے چچا کا انجام اس حقیقت کی ناقابل تردید شہادت ہے۔
Top