Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 66
اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنْكُمْ وَ عَلِمَ اَنَّ فِیْكُمْ ضَعْفًا١ؕ فَاِنْ یَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ صَابِرَةٌ یَّغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ١ۚ وَ اِنْ یَّكُنْ مِّنْكُمْ اَلْفٌ یَّغْلِبُوْۤا اَلْفَیْنِ بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
اَلْئٰنَ : اب خَفَّفَ : تخفیف کردی اللّٰهُ : اللہ عَنْكُمْ : تم سے وَعَلِمَ : اور معلوم کرلیا اَنَّ : کہ فِيْكُمْ : تم میں ضَعْفًا : کمزوری فَاِنْ : پس اگر يَّكُنْ : ہوں مِّنْكُمْ : تم میں سے مِّائَةٌ : ایک سو صَابِرَةٌ : صبر والے يَّغْلِبُوْا : وہ غالب آئیں گے مِائَتَيْنِ : دو سو وَاِنْ : اور اگر يَّكُنْ : ہوں مِّنْكُمْ : تم میں سے اَلْفٌ : ایک ہزار يَّغْلِبُوْٓا : وہ غالب رہیں گے اَلْفَيْنِ : دو ہزار بِاِذْنِ : حکم سے اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْنَ : صبر والے
اب اللہ نے تمہاری ذمہ داری ہلکی کردی اور اس نے جان لیا کہ تم میں کچھ کمزوری ہے سو تمہارے سو ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پر غالب رہیں گے اور اگر ہزار ہوں گے تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پر بھاری ہوں گے اور اللہ ثابت قدموں کے ساتھ ہے
اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِيْكُمْ ضَعْفًا ۭفَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَّغْلِبُوْا مِائَتَيْنِ ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ اَلْفٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفَيْنِ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۔ مسلمانوں کی ذمہ داری میں تخفیف : اَلْئٰنَ کا لفظ یہاں اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ آیت اوپر کی آیات کے بہت بعد اس دور میں نازل ہوئی ہے جب مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے۔ چناچہ دونوں میں تقابل کی نسبت بھی مختلف ہے۔ اوپر والی آیت میں بیس اور دو سو، سو اور ہزار کا تقابل ہے اور اس میں سو اور دو سو، ہزار اور دو ہزار کا تقابل ہے۔ یہ بھی قرینہ ہے کہ یہ مسلمانوں کی کثرت کے دور کی آیت ہے۔ اس کا تعلق چونکہ اسی مضمون سے تھا اس وجہ سے ترتیب میں اس کو یہیں جگہ ملی۔ قرآن میں نظم کے اعتبار کی ایک دلیل یہ بھی ہے۔ یہ بات کہ دس مسلمان سو پر بھاری رہیں گے وارد تو ہوئی ہے بشارت کے سیاق میں لیکن اس بشارت کے ساتھ اس نے مسلمانوں پر ایک بھاری ذمہ داری بھی ڈال دی تھی کہ بیس مسلمان دو سو کافروں کا اور سو مسلمان ہزار کافروں کا اپنے آپ کو مد مقابل سمجھیں اور اگر کہیں اسی نسبت کے ساتھ ان سے مقابلہ نوبت آن پڑے تو قلت تعداد کے عذر پر ان کو پیٹھ نہ دکھائیں۔ چونکہ پیٹھ دکھانے کا گناہ، جیسا کہ آیت 16 میں بیان ہوا، بہت سخت ہے اس وجہ سے قدرتی طور پر مسلمانوں نے اس ذمہ داری کو ایک بھاری ذمہ داری محسوس کیا ہوگا اور اسی احساس کے ساتھ اس کو ادا کرنے کی کوشش کی ہوگی۔ بعد میں جب مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہوگئی تو یہ بوجھ اللہ تعالیٰ نے ہلکا کردیا اور سابق نسبت بدل کر سو اور دو سو، ہزار اور دو ہزار کی نسبت قائم کردی گئی۔ آیت کے الفاط سے اس نسبت کی تبدیلی کی دو وجہیں سامنے آتی ہیں۔ تخفیف کے دو سبب : ایک یہ کہ جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہوگئی تو اس نے یہ پسند فرمایا کہ سابقون الاولون کے کندھوں پر جو زیادہ بوجھ ہے وہ ہلکا کر کے دوسرے بعد میں آنے والے مسلمانوں پر ڈال دیا جائے۔ دسری یہ ہے کہ بعد میں جو لوگ اسلام میں داخل ہوئے وہ بصیرت و عزیمت کے اعتبار سے سابقون الاولون کے ہم پایہ نہیں تھے۔ بحیثیت مجموعی ان کا درجہ کم ہی تھا اس وجہ سے ان کی کمزوری کا لحاظ کر کے ان کی ذمہ داری بھی کم رکھی۔ اس کا اشارہ علم ان فیکم ضعفا سے نکلتا ہے۔ ضعف کا لفظ جسمانی اور مادی کمزوری کے لیے نہیں آتا بلکہ عزم و ارادہ اور معرفت و بصیرت کے ضعف کے لیے بھی آتا ہے۔ ان آیات پر تدبر کی نگاہ ڈالیے تو ایک تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اللہ کی نصرت کا استحقاق اپنے اندر صفت صبر پیدا کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ بغیر اس صفت کے پیدا کیے کسی گروہ کو اللہ کی مدد حاصل نہیں ہوتی۔ دوسری بات یہ نکلتی ہے کہ اسباب و وسائل جس رفتار سے بڑھتے جاتے ہیں خدا کی براہ راست مدد اسی نسبت سے کم ہوتی جاتی ہے۔ تیسری حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ اصل قوت ایمان کی قوت ہے دوسری چیزیں سب اس کے توابع میں سے ہیں۔ چوتھی بات یہ نکلتی ہے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے خدا کے حکم سے ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اصل اعتماد اللہ پر ہونا چاہیے نہ کہ اسباب پر۔
Top