بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tadabbur-e-Quran - Al-Ghaashiya : 1
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَةِؕ
هَلْ : کیا اَتٰىكَ : تمہارے پاس آئی حَدِيْثُ : بات الْغَاشِيَةِ : ڈھانپنے والی
کیا تمہیں چھا جانے والی آفت کی خبر پہنچی ہے !
قیامت اور احوال قیامت کی تصویر: اس انداز میں جو سوال ہوتا ہے وہ طلب جواب کے لیے نہیں بلکہ کسی چیز کے ہول و ہیبت یا اس کی عظمت و شان کے اظہار کے لیے ہوتا ہے۔ یہاں جو خطاب ہے اگرچہ عام بھی ہو سکتا ہے لیکن قرینہ دلیل ہے کہ مخاطب نبی ﷺ ہی ہیں چنانچہ اسی پر عطف کر کے آگے فرمایا ہے: ’فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنۡتَ مُذَکِّرٌ‘ (۲۱) (تم یاددہانی کر دو، تم تو صرف ایک یاددہانی کر دینے والے ہو)۔ ’غَاشِیَۃٌ‘ کے معنی ڈھانک لینے والی اور چھا جانے والی کے ہیں۔ یہاں یہ لفظ قیامت کی صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی آفت ایک ہمہ گیر آفت ہو گی جو سب پر چھا جائے گی، کسی کو بھی اس سے مفر نہیں ہو گا۔ اس کا احوال (حدیث) یہاں سنایا تو نبی ﷺ کو گیا ہے لیکن مقصود، جیسا کہ آگے کی آیات سے واضح ہو گا، ان کفار کو آگاہ کرنا ہے جو اول تو آخرت کو مانتے ہی نہیں تھے اور اگر کسی درجہ میں مانتے بھی تھے تو اپنے اس گمان کی بنا پر اس سے بالکل نچنت تھے کہ ان کو جو کچھ یہاں حاصل ہے اس سے بڑھ کر وہاں حاصل ہو گا۔
Top