Tadabbur-e-Quran - Al-Ghaashiya : 20
وَ اِلَى الْاَرْضِ كَیْفَ سُطِحَتْٙ
وَاِلَى الْاَرْضِ : اور زمین کی طرف كَيْفَ : کیسے سُطِحَتْ : بچھائی گئی
اور زمین کو نہیں دیکھتے، کس طرح بچھائی گئی
پہاڑوں کے بعد ہموار زمین پر: ’وَإِلَی الْأَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ‘۔ اب یہ نگاہ کو پہاڑوں سے زمین پر اتارا اور دعوت دی کہ زمین کو دیکھیں کہ کس طرح یہ ان کے قدموں کے نیچے بچھائی گئی ہے۔ کس طرح اس کے گوشے گوشے میں ان کی پرورش کے لیے ضرورت کی چیزیں پیدا کی گئی ہیں۔ اس کی مسطح زمینوں پر یہ اپنے گھر بنا لیتے ہیں۔ اس کے میدانوں میں ان کے کھیت اور ان کے باغ و چمن ہیں۔ اس کی نہریں، اس کے کنوئیں اور اس کے چشمے ان کے کھیتوں اور باغوں کو شاداب رکھتے ہیں، اس کے جنگلوں اور اس کی وادیوں میں ان کے چوپایوں اور گلوں کے لیے پیٹ بھرنے کے غیرمحدود وسائل موجود ہیں۔ ان ساری چیزوں کو دیکھیں اور سوچیں کہ جس نے ان کو اس بنے بنائے گھر میں اتارا اور اس کی ساری چیزیں وہ برت رہے ہیں کیا اس کو اس امر سے کوئی بحث نہیں ہے کہ کون گھر کے مالک کی پسند کے مطابق زندگی گزارتا ہے اور کون اس کو اپنے اب و جد کی میراث سمجھ کر اس میں اکڑتا ہے اور اودھم مچاتا ہے؟ ظاہر ہے کہ عقل یہی کہتی ہے کہ اس کو اس سے بحث ہے اور ہونی چاہیے۔ اگر یہ نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ العیاذ باللہ یا تو وہ بے حس و بلید اور خیر و شر کے شعور سے عاری ہے یا بالکل بے بس و مجبور ہے۔ لیکن جس ذات کی قدرت، حکمت، ربوبیت اور عظمت کی وہ نشانیاں آپ نے دیکھی ہیں، جن کا ذکر اوپر ہوا، اس کو نہ بے حمیت و بے شعور فرض کیا جا سکتا نہ عاجز و بے بس تو لازماً یہ ماننا پڑے گا کہ وہ اس گھر میں انسان کو اتار کر دیکھ رہا ہے کہ وہ کیا بناتا ہے۔ بالآخر ایک دن اس امتحان کی مدت پوری ہو گی اور وہ سب کو اپنے حضور میں جمع کر کے ان کی نیکی اور بدی ان کے سامنے رکھے گا۔ جس کی روش اس کی پسند کے مطابق رہی ہو گی اس کو وہ اپنی رحمت سے نوازے گا اور جس نے اس گھر میں فساد مچایا ہو گا وہ اپنے کیے کی سزا بھگتے گا۔ ’کَیْفَ خُلِقَتْ‘ اور ’کَیْفَ رُفِعَتْ‘ وغیرہ کے لفظوں میں جو سوالات کیے گئے ہیں ان کے اندر اجمال ہے، اس کی تفصیل قرآن کی دوسری سورتوں میں بیان ہوئی ہے۔ ہم نے اوپر جو وضاحت کی ہے انہی سورتوں کی روشنی میں کی ہے اور صرف اسی حد تک کی ہے جس حد تک اس سورہ میں ضروری تھی۔ مذکورہ چیزوں سے قرآن نے اپنے جن جن دعاوی پر دلیل قائم کی ہے اگر کوئی ان سب کو سمجھنا چاہیے تو وہ قرآن کے ان تمام مقامات کا جائزہ لے جہاں زمین، آسمان، پہاڑ اور اونٹ کسی پہلو سے زیربحث آئے ہیں۔ ترتیب بیان کی ندرت: یہاں ترتیب بیان میں بھی ایک خاص ندرت ہے کہ اس کے اندر صعودی اور ہبوطی دونوں ترتیبیں جمع ہو گئی ہیں۔ مقصود تو، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، چند نمایاں نشانیوں کی طرف توجہ دلانا ہے تاکہ ضدیوں کو فرار کی کوئی راہ نہ ملے۔ چنانچہ سب سے قریب کی نمایاں چیز اونٹ کی طرف پہلے اشارہ فرمایا جس کی نفع بخشی سے مخاطبوں میں سے کسی کے لیے مجال انکار نہیں تھی۔ اونٹ کی طرف اشارہ کرنے کے بعد وہیں سے آسمان کی طرف توجہ دلا دی کہ ایک نظر اس کو بھی دیکھیں۔ پھر زمین کی طرف بازگشت ہوئی تو بیچ میں پہاڑ آ گئے، ان کی طرف توجہ دلا دی۔ پہاڑوں کے بعد مسطح زمین توجہ کے لیے اپنے اندر قدرتی کشش رکھتی ہے۔ ان میں سے دو نشانیاں۔۔۔ اونٹ اور زمین۔۔۔ ربوبیت کے پہلو سے زیادہ نمایاں ہیں اور دو۔۔۔ آسمان اور پہاڑ۔۔۔ خالق کی قدرت و حکمت کے پہلو سے۔ خالق کی انہی صفتوں پر قیامت، معاد اور جزا و سزا کے پورے فلسفہ کی بنیاد ہے جس کی وضاحت اس کتاب میں ہم برابر کرتے آ رہے ہیں۔ اب دیکھیے اس ترتیب بیان نے نگاہ کی ایک بڑی گردش میں کس طرح ان تمام نمایاں آثار کو سامنے کر دیا ہے جو اس فلسفہ کے حق ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔
Top