Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 184
قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ۠   ۧ
قَاتِلُوا : تم لڑو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَلَا : اور نہ بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : یومِ آخرت پر وَلَا يُحَرِّمُوْنَ : اور نہ حرام جانتے ہیں مَا حَرَّمَ : جو حرام ٹھہرایا اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول وَلَا يَدِيْنُوْنَ : اور نہ قبول کرتے ہیں دِيْنَ الْحَقِّ : دینِ حق مِنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دئیے گئے (اہل کتاب) حَتّٰي : یہانتک يُعْطُوا : وہ دیں الْجِزْيَةَ : جزیہ عَنْ : سے يَّدٍ : ہاتھ وَّهُمْ : اور وہ صٰغِرُوْنَ : ذلیل ہو کر
ان اہل کتاب سے جو نہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے، نہ اللہ اور اس کے رسول کے حرام ٹھہرائے ہوئے کو حرام ٹھہراتے اور نہ دین حق کی پیروی کرتے، جنگ کرو تاآنکہ وہ مغلوب ہو کر جزیہ ادا کریں اور ماتحت بن کر زندگی بسر کرنے پر راضی ہوں
آیات 29 تا 35: آگے اہل کتاب۔ یہود و نصاری۔ سے جہاد کا حکم دیا ہے اور اوپر جس طرح مشرکین کے باب میں ایک واضح اور قطعی پالیسی سامنے رکھ دی ہے اسی طرح ان کے باب میں بھی ایک واضح اور قطعی پالیسی کا اعلان کردیا ہے کہ اب یہ اسلامی حکومت میں رہنا چاہتے ہیں تو صرف ذمی بن کر رہ سکتے ہیں۔ ان کے نقض عہد اور ان کی سازشوں کی تفصیل انفال میں گزر چکی ہے۔ یہاں بھی ان کے عقائد اور ان کے کردار کے ان پہلوؤں کی طرف بعض اشارات فرما دیے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ ایک مذہبی گروہ کی حیثیت سے اب ان کا وجود نہ صرف ایک ناکارہ وجود ہے بلکہ یہ سزاوار ہیں کہ اپنی کرتوتوں کی سزا بھگتیں۔ آیات کی تلاوت فرمائیے۔ اہل کتاب کے جرائم اور ان کے بارے میں حکم : قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ۔ اہل کتاب کے مذہبی اور سیاسی جرائم کی تفصیلی بقرہ، آل عمران، مائدہ اور انفال سب میں بیان ہوچکی ہے۔ اگرچہ یہ لوگ نہ صرف ایمان کے مدعی تھے بلکہ اپنے آپ کو دین و شریعت کا تنہا اجارہ دار سمجھے بیٹھے تھے لیکن مذکورہ سورتوں میں پوری وضاحت سے ثابت ہوچکا ہے کہ اللہ، آخرت اور شریعت کسی چیز پر بھی یہ ایمان نہیں رکھتے تھے۔ ایان کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ اللہ کے شرائط کے تحت ہو لیکن ان کا ایمان اپنی خواہشوں اور بدعات کے تحت تھا۔ مشرکانہ عقائد ایجاد کر کے انہوں نے خدا کی نفی کردی، اپنے آپ کو چہیتی اور مغفور امت قرار دے کر آخرت کا ابطال کردیا اور اللہ اور رسول کی حرام ٹھہرائی ہوئی چیزوں کو جائز بنا کر شریعت کو کالعدم کردیا۔ پھر ستم بالائے ستم یہ کیا کہ اللہ نے اپنے آخری رسول کے ذریعے سے، اپنے وعدے کے مطابق، جو دین حق بھیجا تو اس کو نہ صرف یہ کہ قبول نہیں کیا بلکہ اس کی خالفت میں اپنا پورا زور صرف کردیا اور اس کے خلاف برابر سازشوں میں سرگرم رہے۔ فرمایا کہ اب یہ مفسدین کسی مزید مہلت کے حقدار باقی نہیں رہ گئے ہیں۔ ان سے بھی جنگ کرو یہاں تک کہ یہ مغلوب ہو کر جزیہ دیں اور ماتحت بن کر زندگی بسر کرنے پر راضی ہوں۔ عن ید کا مفہوم : حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ۔ ید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں لیکن یہ غلبہ، تسلط اور اختیار و اقتدار کے معنی میں بھی آتا ہے یعنی ان کی طرف سے یہ ادائیگی، جزیہ تمہارے اقتدار و غلبہ کے نتیجہ میں ہو۔ ان سے جنگ کر کے ان کے کس بل اس طرح نکال دو کہ یہ تمہارے آگے گھٹنے ٹیک دیں اور ہاتھ باندھ کر جزیہ دینے پر راضی ہوں۔ وھم صغرون، یعنی تمہاری ماتحتی و محکومی قبول کریں اور اس کو غنیمت جانیں۔ جزیہ کی حیثیت : یہ جزیہ ایک ٹیکس ہے جو تمام بالغ اور کماؤ افراد پر اس امان کے معاوضہ کے طور پر لگایا گیا جو ان کے جان و مال اور زن و فرزن کو اسلامی حکومت کے اندر حاصل ہوئی۔ اس کی مقدار افراد کی حیثیت اور صلاحیت کے اعتبار سے مختلف ہوتی تھی جس میں چھوٹ اور رعایت کی بھی بڑی گنجائش رکھی گئی تھی۔ تفصیلات اس کی ہماری کتاب اسلامی ریاست میں، غیر مسلموں کے حقوق کے باب میں ملے گی۔ اہل کتاب اور مشرکین میں فرق کی وجہ : یہاں ایک بات بہت نمایاں طور پر محسوس ہوگی کہ اہل کتاب کے ساتھ جو معاملہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے وہ اس سے مختلف ہے جس کی ہدایت اوپر مشرکین کے باب میں کی گئی ہے۔ مشرکین باب میں تو یہ حکم ہوا کہ جب تک یہ کفر سے توبہ کر کے اسلام نہ اختیار کرلیں اس وقت تک ان کا پیچھا نہ چھوڑو لیکن ان اہل کتاب کو جزیہ کی ادائیگی پر امان دے دینے کی ہدایت ہوئی۔ اس فرق کی وجہ وہی ہے جس کی وضاحت ہم پیچھے کرچکے ہیں کہ مشرکین عرب کی طرف رسول اللہ ﷺ کی بعثت براہ راست تھی۔ آپ انہی کے اندر سے اٹھائے گئے، انہی کی زبان میں آپ ﷺ پر اللہ کا کلام اترا اور انہی کو آپ ﷺ کی بعثت براہ راست تھی، آپ انہی کے اندر سے اٹھائے گئے، انہی کی زبان میں آپ ﷺ پر اللہ کا کلام اترا اور انہی کو آپ نے اپنی دعوت کا مخاطب اول بنایا اور ہر پہلو سے انہی کے معروف و منکر اور انہی کے مطالبات کے مطابق آپ نے ان پر اتمام حجت کیا۔ اس اہتمام کے بعد ان کے لیے کسی مزید مہلت کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ چناچہ مشرکین بنی اسماعیل ذمی نہیں بنائے جاسکتے تھے لیکن دوسرے غیر مسلموں کو یہ موقع دیا گیا کہ وہ اسلامی حکومت میں ذمی بن کر رہ سکتے ہیں۔ دوسرے غیر مسلموں کا حکم : اصلاً تو یہاں جو حکم بیان ہوا ہے وہ اہل کتاب یعنی یہود و نصاری سے متعلق ہے لیکن صحابہ کے زمانہ ہی میں یہ مسئلہ بھی طے پا چکا تھا کہ یہی حکم دوسرے غیر مسلموں کا بھی ہے۔ چناچہ مجوس کے ساتھ، ان کو مشابہ اہل کتاب قرار دے کر، یہی معاملہ کیا گیا جس کی ہدایت یہاں اہل کتاب کے باب میں ہوئی ہے۔ اس باب میں فقہا میں کوئی اختلاف رائے ہے تو وہ فروعی نوعیت کا ہے جس کی تفصیلات فقہ کی کتابوں میں موجود ہیں۔ مفتوح اور معاہدان ذمہ کا حکم : یہ بات یہاں خاص طور پر ذہن میں رکھنے کی ہے کہ آیت میں جو حکم بیان ہوا ہے وہ مفتوح اہل ذمہ کا ہے یعنی جنہوں نے اسلامی حکومت سے جنگ کی ہو اور شکست کھا کر اس کی اطاعت پر مجبور ہوئے ہوں۔ وہ اہل ذمہ اس سے الگ ہیں جن کو فقہاء نے معاہدہ یا اہل صلح سے تعبیر کیا ہے۔ معاہد اہل ذمہ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے بغیر کسی جنگ و قتال کے بطور خود اپنی مرضی سے اسلامی حکومت کی رعیت بن کر رہنا اختیار کیا ہو۔ ان لوگوں کے ساتھ حکومتِ اسلامی اس عہد نامے کے مطابق معاملہ کرے گی جو ان کے اور حکومت کے مابین طے پا چکا ہو۔ یہاں تک کہ اگر وہ اس بات پر مصر ہوں کہ ان پر بھی اسی طرح کے مالی واجبات عائد کیے جائیں جو مسلمانوں پر عائد ہیں تو حکومت ان سے اپنی صواب دید کے مطابق اس شرط پر بھی معاہدہ کرسکتی ہے، دوسروں لفظوں میں اس فرق کو یوں سمجھیے کہ اگر جزیہ کی ادائیگی میں وہ عار اور ذلت محسوس کریں تو ان کو اس سے مستثنی کر کے ان کے لیے کوئی اور مناسب شکل اختیار کی جاسکتی ہے۔ ان لوگوں سے جو معاہدہ بھی طے پاجائے بلا کسی سبب معقول کے اس کو توڑنے کی اسلام میں سخت ممانعت آئی ہے۔ ہم نے اہل ذمہ کی ان دونوں قسموں پر اپنی کتاب اسلامی ریاست میں تفصیل سے بحث کی ہے۔ جو لوگ مسئلہ کو دلائل کی روشنی میں سمجھنا چاہتے ہوں وہ اس کتاب کا مطالعہ کریں۔
Top