Tafheem-ul-Quran - Hud : 74
فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ اِبْرٰهِیْمَ الرَّوْعُ وَ جَآءَتْهُ الْبُشْرٰى یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍؕ
فَلَمَّا : پھر جب ذَهَبَ : جاتا رہا عَنْ : سے (کا) اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم الرَّوْعُ : خوف وَجَآءَتْهُ : اس کے پاس آگئی الْبُشْرٰي : خوشخبری يُجَادِلُنَا : ہم سے جھگڑنے لگا فِيْ : میں قَوْمِ لُوْطٍ : قوم لوط
پھر جب ابراہیم ؑ کی گھبراہٹ دُور ہوگئی اور (اولاد کی بشارت سے) اُس کا دل خوش ہوگیا تو اُس نے قومِ لُوط کے معاملہ میں ہم سے جھگڑا شروع کیا۔ 83
سورة هُوْد 83 " جھگڑے " کا لفظ اس موقع پر اس انتہائی محبت اور ناز کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے جو حضرت ابراہیم ؑ اپنے خدا کے ساتھ رکھتے تھے۔ اس لفظ سے یہ تصویر آنکھوں کے سامنے پھرجاتی ہے کہ بندے اور خدا کے درمیان بڑی دیر تک رد وکد جاری رہتی ہے۔ بندہ اصرار کر رہا ہے کہ کسی طرح قوم پر لوط ؑ پر سے عذاب ٹال دیا جائے۔ خدا جواب میں کہہ رہا ہے کہ یہ قوم اب خیر سے باکل خالی ہوچی ہے اور اس کے جائم اس حد سے گزر چکے ہیں کہ اس کے ساتھ کوئی رعایت کی جاسکے۔ مگر بندہ ہے کہ پھر یہی کہے جاتا ہے کہ " پروردگار اگر کچھ تھوڑی سی بھلائی بھی اس میں باقی ہو تو اسے اور ذرا مہلت دیدے، شاید کہ وہ بھلائی لے آئے۔ " بائیبل میں اس جھگڑے کی کجھ تشریح بھی بیان ہوئی ہے، لیکن قرآں کا مجمل بیان اپنے اندر اس سے زیادہ معنوی وسعت رکھتا ہے۔ (تقابل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب پیدائش، باب 18۔ آیت 23۔ 32)
Top