Tafheem-ul-Quran - Ibrahim : 13
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا١ؕ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظّٰلِمِیْنَۙ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لِرُسُلِهِمْ : اپنے رسولوں کو لَنُخْرِجَنَّكُمْ : ضرور ہم تمہیں نکال دیں گے مِّنْ : سے اَرْضِنَآ : اپنی زمین اَوْ : یا لَتَعُوْدُنَّ : تم لوٹ آؤ فِيْ مِلَّتِنَا : ہمارے دین میں فَاَوْحٰٓى : تو وحی بھیجی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف رَبُّهُمْ : ان کا رب لَنُهْلِكَنَّ : ضرور ہم ہلاک کردینگے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
آخرِ کار منکرین نے اپنے رسُولوں سے کہہ دیا کہ ”یا تو تمہیں ہماری ملّت میں واپس آنا ہوگا22 ورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے۔“ تب اُن کے ربّ نے اُن پر وحی بھیجی کہ ”ہم اِن ظالموں کو ہلاک کر دیں گے
سورة اِبْرٰهِیْم 22 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) منصب نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے اپنی گمراہ قوموں کی ملت میں شامل ہوا کرتے تھے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نبوت سے پہلے چونکہ وہ ایک طرح کی خاموش زندگی بسر کرتے تھے، کسی دین کی تبلیغ اور کسی رائج الوقت دین کی تردید نہیں کرتے تھے، اس لیے ان کی قوم یہ سمجھتی تھی کہ وہ ہماری ہی ملت میں ہیں، اور نبوت کا کام شروع کردینے کے بعد ان پر یہ الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ ملت آبائی سے نکل گئے ہیں۔ حالانکہ وہ نبوت سے پہلے بھی کبھی مشرکین کی ملت میں شامل نہ ہوئے تھے کہ اس سے خروج کا الزام ان پر لگ سکتا۔
Top