Tafheem-ul-Quran - Al-Hijr : 71
قَالَ هٰۤؤُلَآءِ بَنٰتِیْۤ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَؕ
قَالَ : اس نے کہا هٰٓؤُلَآءِ : یہ بَنٰتِيْٓ : میری بیٹیاں اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو فٰعِلِيْنَ : کرنیوالے (کرنا ہے)
لوط ؑ نے عاجز ہو کر کہا”اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو یہ میری بیٹیاں موجود ہیں!“40
سورة الْحِجْر 40 اس کی تشریح سورة ہود کے 87 میں بیان کی جا چکی ہے۔ یہاں صرف اتنا اشارہ کافی ہے کہ یہ کلمات ایک شریف آدمی کی زبان پر ایسے وقت میں آئے ہیں جب کہ وہ بالکل تنگ آچکا تھا اور بدمعاش لوگ اس کی ساری فریاد فغاں سے بےپروا ہو کر اس کے مہمانوں پر ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ اس موقع پر ایک بات کو صاف کردینا ضروری ہے۔ سورة ہود میں واقعہ جس ترتیب سے بیان کیا گیا ہے اس میں یہ تصریح ہے کہ حضرت لوط ؑ کو بدمعاشوں کے اس حملہ کے وقت تک یہ معلوم نہ تھا کہ ان کے مہمان درحقیقت فرشتے ہیں۔ وہ اس وقت تک یہی سمجھ رہے تھے کہ یہ چند مسافر لڑکے ہیں جو ان کے ہاں آکر ٹھیرے ہیں۔ انہوں نے اپنے فرشتہ ہونے کی حقیقت اس وقت کھولی جب بدمعاشوں کا ہجوم مہمانوں کی قیامگاہ پر پل پڑا اور حضرت لوط ؑ نے تڑپ کر فرمایا " لَوْ اَنَّ لِیْ بِکُمْ قُوَّۃً اَوْ اٰوِیْٓ الیٰ رُکْنٍ شَدِیْدٍ (کاش مجھے تمہارے مقابلے کی طاقت حاصل ہوتی یا میرا کوئی سہارا ہوتا جس سے میں حمایت حاصل کرتا)۔ اس کے بعد فرشتوں نے ان سے کہا کہ اب تم اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے نکل جاؤ اور ہمیں ان سے نمٹنے کے لیے چھوڑ دو۔ واقعات کی اس ترتیب کو نگاہ میں رکھنے سے پورا اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرت لوط ؑ نے یہ الفاظ کس تنگ موقع پر عاجز آکر فرمائے تھے۔ اس سورے میں چونکہ واقعات کو ان کی ترتیب وقوع کے لحاظ سے نہیں بیان کیا جا رہا ہے، بلکہ اس خاص پہلو کو خاص طور پر نمایاں کرنا مقصود ہے جسے ذہن نشین کرنے کی خاطر ہی یہ قصہ یہاں نقل کیا گیا ہے، اس لیے ایک عام ناظر کو یہاں یہ غلط فہمی پیش آتی ہے کہ فرشتے ابتدا ہی میں اپنا تعارف حضرت لوط ؑ سے کرا چکے تھے اور اب اپنے مہمانوں کی آبرو بچانے کے لیے ان کی یہ ساری فریاد و فغاں محض ایک ڈرامائی انداز کی تھی۔
Top