Tafheem-ul-Quran - Al-Israa : 11
وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا
وَيَدْعُ : اور دعا کرتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان بِالشَّرِّ : برائی کی دُعَآءَهٗ : اس کی دعا بِالْخَيْرِ : بھلائی کی وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان عَجُوْلًا : جلد باز
انسان شر اُس طرح مانگتا ہے جس طرح خیر مانگنی چاہیے۔ انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔12
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 12 یہ جواب ہے کفار مکہ کی ان احمقانہ باتوں کا جو وہ بار بار نبی ﷺ سے کہتے تھے کہ بس آؤ وہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈرایا کرتے ہو۔ اوپر کے بیان کے بعد معا یہ فقرہ ارشاد فرمانے کے غرض اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ بیوقوفو ! خیر مانگنے کے بجائے عذاب مانگتے ہو ؟ تمہیں کچھ اندازہ بھی ہے خدا کا عذاب جب کسی قوم پر آتا ہے تو اس کی کیا گت بنتی ہے ؟ اس کے ساتھ اس فقرے میں ایک لطیف تنبیہ مسلمانوں کے لیے بھی تھی جو کفار کے ظلم و ستم اور ان کی ہٹ دھرمیوں سے تنگ آکر کبھی کبھی ان کے حق میں نزول عذاب کی دعا کرنے لگتے تھے، حالانکہ ابھی انہی کفار میں بہت سے وہ لوگ موجود تھے جو آگے چل کر ایمان لانے والے اور دنیا بھر میں اسلام کا جھنڈا بلند کرنے والے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان بڑا بےصبر واقع ہوا ہے۔ ، ہر وہ چیز مانگ بیٹھتا ہے جس کی بروقت ضرورت محسوس ہوتی ہے، حالانکہ بعد میں اسے خود تجربہ سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اگر اس وقت اس کی دعا قبول کرلی جاتی تو وہ اس کے حق میں خیر نہ ہوتی۔
Top