Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 31
وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَآءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَاۤ١ۙ اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ
وَاِذَا : اور جب تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْهِمْ : ان پر اٰيٰتُنَا : ہماری آیات قَالُوْا : وہ کہتے ہیں قَدْ سَمِعْنَا : البتہ ہم نے سن لیا لَوْ نَشَآءُ : اگر ہم چاہیں لَقُلْنَا : کہ ہم کہہ لیں مِثْلَ : مثل هٰذَآ : اس اِنْ : نہیں هٰذَآ : یہ اِلَّآ : مگر (صرف) اَسَاطِيْرُ : قصے کہانیاں الْاَوَّلِيْنَ : پہلے (اگلے)
اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں (یہ کلام) ہم نے سن لیا ہے۔ اگر ہم چاہیں تو اسی طرح کا (کلام) ہم بھی کہہ دیں۔ اور یہ ہے ہی کیا ؟ صرف اگلے لوگوں کی حکایتیں ہیں۔
تفسیر 31(واذا تتلی علیھم ایتنا قالوا) یعنی نضر بن حارث (قد سمعنا لو نشآء لقلنا مثل ھذآ) کیونکہ نضر تجارت کی غرض سے فارس اور حیرۃ کی طرف جاتا رہتا تھا اور وہاں رستم اور اسفند یار کے قصے سنتا اور عجمیوں کی کہانیاں سنتا اور یہود و نصاریٰ پر گزرتا تو ان کو رکوع اور سجدہ میں دیکھتا اور یہ کہ وہ توریت اور انجیل پڑھتے ہیں تو وہ مکہ آیا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ بھی نماز پڑھتے اور قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو نضر کہنے لگا ہم نے سن لیا، اگر ہم چاہیں تو اس کی مثل کہہ لیں (ان ھذا انا اساطیر الاولین) گزشتہ امتوں کی خبریں اور نام ہیں اور جو کچھ انہوں نے اپنی کتابوں میں لکھا۔ ” اساطیر اسورۃ “ کی جمع ہے بمعنی لکھا ہوا یہ مشتق ہے ان کے قول ” سطرت “ بمعنی ” کتبت “ سے۔
Top