Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 65
وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِئِیْنَۚ
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ : اور البتہ تم نے جان لیا الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا : جنہوں نے زیادتی کی مِنْكُمْ : تم سے فِي السَّبْتِ : ہفتہ کے دن میں فَقُلْنَا : تب ہم نے کہا لَهُمْ : ان سے كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ قِرَدَةً خَاسِئِیْنَ : ذلیل بندر
پھر تمہیں اپنی قوم کے اُن لوگوں کا قصّہ تو معلوم ہی ہےجنہوں نےسَبت82 کا قانون توڑا تھا۔ہم نے اُنہیں کہ دیا کہ بندر بن جاوٴ اور اس حالت میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دھتکار پھٹکار پڑے۔ 83
سورة الْبَقَرَة 82 سَبْت، یعنی ہفتے کا دن۔ بنی اسرائیل کے لیے یہ قانون مقرر کیا گیا تھا کہ وہ ہفتے کو آرام اور عبادت کے لیے مخصوص رکھیں۔ اس روز کسی قسم کا دنیوی کام، حتّٰی کہ کھانا پکانے کا کام بھی نہ خود کریں، نہ اپنے خادموں سے لیں۔ اس باب میں یہاں تک تاکیدی احکام تھے کہ جو شخص اس مقدس دن کی حرمت کو توڑے، وہ واجب القتل ہے (ملاحظہ ہو خروج، باب 31، آیت 17-12)۔ لیکن جب بنی اسرائیل پر اخلاقی و دینی انحطاط کا دور آیا تو وہ علی الا علان سَبْت کی بےحرمتی کرنے لگے حتّٰی کہ ان کے شہروں میں کھلے بندوں سَبْت کے روز تجارت ہونے لگی۔ سورة الْبَقَرَة 83 اس واقعے کی تفصیل آگے سورة اعراف رکوع 21 میں آتی ہے۔ ان کے بندر بنائے جانے کی کیفیت میں اختلاف ہے۔ بعض یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جسمانی ہیئت بگاڑ کر بندروں کی سی کردی گئی تھی اور بعض اس کے یہ معنی لیتے ہیں کہ ان میں بندروں کی سی صفات پیدا ہوگئی تھیں۔ لیکن قرآن کے الفاظ اور انداز بیان سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسخ اخلاقی نہیں بلکہ جسمانی تھا۔ میرے نزدیک قرین قیاس یہ ہے کہ ان کے دماغ بعینہ اسی حال پر رہنے دیے گئے ہوں گے جس میں وہ پہلے تھے اور جسم مسخ ہو کر بندروں کے سے ہوگئے ہوں گے۔
Top