Tafheem-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 3
لَاهِیَةً قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اَسَرُّوا النَّجْوَى١ۖۗ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا١ۖۗ هَلْ هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ١ۚ اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ
لَاهِيَةً : غفلت میں ہیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاَسَرُّوا : اور چپکے چپکے بات کی النَّجْوَي : سرگوشی الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا : اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا (ظالم) هَلْ : کیا ھٰذَآ : یہ اِلَّا : مگر بَشَرٌ : ایک بشر مِّثْلُكُمْ : تم ہی جیسا اَفَتَاْتُوْنَ : کیا پس تم آؤگے السِّحْرَ : جادو وَاَنْتُمْ : اور (جبکہ) تم تُبْصِرُوْنَ : دیکھتے ہو
دل اُن کے (دوسری ہی فکروں میں)منہمک ہیں۔ اور ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتےہیں کہ ”یہ شخص آخر تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے، پھر کیا تم آنکھوں دیکھتے جادُو کے پھندے میں پھنس جاوٴ گے؟“ 5
سورة الْاَنْبِیَآء 5 " پھنسے جاتے ہو " بھی ترجمہ ہوسکتا ہے، اور دونوں ہی مطلب صحیح ہیں۔ سرگوشیاں کفار مکہ کے وہ بڑے بڑے سردار آپس میں بیٹھ بیٹھ کر کیا کرتے تھے جن کو نبی ﷺ کی دعوت کا مقابلہ کرنے کی بڑی فکر لاحق تھی وہ کہتے تھے یہ شخص بہرحال نبی تو ہو نہیں سکتا، کیونکہ ہم ہی جیسا انسان ہے، کھاتا ہے، پیتا ہے، بازاروں میں چلتا پھرتا ہے، بیوی بچے رکھتا ہے۔ آخر اس میں وہ نرالی بات کیا ہے جو اس کو ہم سے ممتاز کرتی ہو اور ہماری بہ نسبت اس کو خدا سے ایک غیر معمولی تعلق کا مستحق بناتی ہو ؟ البتہ اس شخص کی باتوں میں اور اس کی شخصیت میں ایک جادو ہے کہ جو اس کی بات کان لگا کر سنتا ہے اور اس کے قریب جاتا ہے وہ اس کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ اس لئے اگر اپنی خیر چاہتے ہو تو اس کی سنو اور نہ اس سے میل جول رکھو، کیونکہ اس کی باتیں سننا اور اس کے قریب جانا گویا آنکھوں دیکھتے جادو کے پھندے میں پھنسنا ہے۔ جس چیز کی وجہ سے وہ نبی ﷺ پر " سحر " کا الزام چسپاں کرتے تھے اس کی چند مثالیں آپ کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق (متوفی 152 ھ) نے بیان کی ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ ایک دفعہ عُتْبَہ بن ربیعہ (ابو سفیان کے خسر، ہند جگر خور کے باپ) نے سرداران قریش سے کہا، اگر آپ لوگ پسند کریں تو میں جا کر محمد ﷺ سے ملوں اور اسے سمجھانے کی کوشش کروں۔ یہ حضرت حمزہ کے اسلام لانے کے بعد کا واقعہ ہے جب کہ نبی ﷺ کے صحابہ کی تعداد روز بروز بڑھتی دیکھ کر اکابر قریش سخت پریشان ہو رہے تھے۔ لوگوں نے کہا ابو الولید، تم پر پورا اطمینان ہے، ضرور جا کر اس سے بات کرو۔ وہ حضور ﷺ کے پاس پہنچا اور کہنے لگا، " بھتیجے، ہمارے ہاں تم کو جو عزت حاصل تھی، تم خود جانتے ہو، ور نسب میں بھی تم ایک شریف ترین گھرانے کے فرد ہو۔ تم اپنی قوم پر یہ کیا مصیبت لے آئے ہو ؟ تم نے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا۔ ساری قوم کو بیوقوف ٹھہرایا۔ اس کے دین اور اس کے معبودوں کی برائی کی۔ باپ دادا جو مر چکے ہیں ان سب کو تم نے گمراہ اور کافر بنایا۔ بھتیجے، اگر ان باتوں سے تمہارا مقصد دنیا میں اپنی بڑائی قائم کرنا ہے تو آؤ ہم سب مل کر تم کو اتنا روپیہ دے دیتے ہیں کہ تم سب سے زیادہ مال دار ہوجاؤ۔ سرداری چاہتے ہو تو ہم تمہیں سردار مانے لیتے ہیں۔ بادشاہی چاہتے ہو تو بادشاہ بنا دیتے ہیں۔ اور اگر تمہیں کوئی بیماری ہوگئی ہے جس کی وجہ سے تم کو واقعی سوتے یا جاگتے میں کچھ نظر آنے لگا ہے تو ہم سب مل کر بہترین طبیبوں سے تمہارا علاج کرائے دیتے ہیں۔ " یہ باتیں وہ کرتا رہا اور نبی ﷺ خاموش سنتے رہے۔ جب وہ خوب بول چکا تو آپ نے فرمایا " ابوالولید، جو کچھ آپ کہنا چاہتے تھے کہہ چکے ہیں، یا اور کچھ کہنا ہے "۔ اس نے کہا بس مجھے جو کچھ کہنا تھا میں نے کہہ دیا۔ آپ نے فرمایا اچھا اب میری سنو۔ بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ ، حٰمٓ، تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اس کے بعد کچھ دیر تک مسلسل آپ سورة حٰم السجدہ کی تلاوت فرماتے رہے اور عتبہ پیچھے زمین پر ہاتھ ٹیکے غور سے سنتا رہا۔ اڑتیسویں آیت پر پہنچ کر آپ نے سجدہ کیا، اور پھر سر اٹھا کر عتبہ سے فرمایا، " ابو الولید، جو کچھ مجھے کہنا تھا وہ آپ نے سن لیا، اب آپ جانیں اور آپ کا کام۔ " عتبہ یہاں سے اٹھ کر سرداران قریش کی طرف پلٹا تو لوگوں نے دور سے ہی اس کو آتے دیکھ کر کہا " خدا کی قسم، ابوالولید کا چہرا بدلا ہوا ہے۔ یہ وہ صورت نہیں ہے جسے لے کر وہ گیا تھا۔ " اس کے پہنچتے ہی لوگوں نے سوال کیا، " کہو ابوالولید، کیا کر آئے ہو " ؟ اس نے کہا " خدا کی قسم، آج میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہ سنا تھا۔ واللہ یہ شعر نہیں ہے، نہ سحر ہے اور نہ کہانت۔ اے معشر قریش، میری بات مانو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ اس کی باتیں جو میں نے سنی ہیں رنگ لا کر رہیں گی۔ اگر عرب اس پر غالب آگئے تو اپنے بھائی کا خون تمہاری گردن پر نہ ہوگا، دوسروں پر ہوگا۔ اور اگر یہ عرب پر غالب آگیا تو اس کی حکومت تمہاری حکومت ہوگی۔ اور اس کی عزت تمہاری عزت "۔ لوگوں نے کہا " واللہ، ابوالولید تم پر بھی اس کا جادو چل گیا۔ " اس نے کہا " یہ میری رائے ہے، اب تم جانو اور تمہارا کام "۔ (ابن ہشام، جلد اول، ص 313۔ 314)۔ بیہقی نے اس واقعہ کے متعلق جو روایات جمع کی ہیں ان میں سے ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ جب حضور ﷺ سورة حٰم سجدہ کی تلاوت کرتے ہوئے اس آیت پر پہنچے کہ فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صَاعِقَۃ عَادٍ وَّ ثَمُوْدٍ ، تو عتبہ نے بےاختیار آگے بڑھ کر آپ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہنے لگا کہ خدا کے لیے اپنی قوم پر رحم کرو۔ دوسرا واقعہ ابن اسحاق نے یہ بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ قبیلہ اَرَاش کا ایک شخص کچھ اونٹ لے کر مکہ آیا۔ ابو جہل نے اس کے اونٹ خرید لیے اور جب اس نے قیمت طلب کی تو ٹال مٹول کرنے لگا۔ اَرَشی نے تنگ آ کر ایک روز حرم کعبہ میں قریش کے سرداروں کو جا پکڑا اور مجمع عام میں فریاد شروع کردی۔ دوسری طرف حرم کے ایک گوشے میں نبی ﷺ تشریف فرما تھے۔ سرداران قریش نے اس شخص سے کہا کہ " ہم کچھ نہیں کرسکتے، دیکھو، وہ صاحب جو اس کونے میں بیٹھے ہیں، ان سے جا کر کہو، وہ تم کو تمہارا روپیہ دلوا دیں گے۔ " اَرَشی نبی ﷺ کی طرف چلا، اور قریش کے سرداروں نے آپس میں کہا " آج لطف آئے گا "۔ اراشی نے جا کر حضور سے اپنی شکایت بیان کی۔ آپ اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر ابو جہل کے مکان کی طرف روانہ ہوگئے۔ سرداروں نے پیچھے ایک آدمی لگا دیا کہ جو کچھ گزرے اس کی خبر لا کر دے۔۔ نبی ﷺ سیدھے ابو جہل کے دروازے پر پہنچے اور کنڈی کھٹکھٹائی۔ اس نے پوچھا " کون " ؟ آپ نے جواب دیا " محمد ﷺ " وہ حیران ہو کر باہر نکل آیا۔ آپ نے اس سے کہا " اس شخص کا حق ادا کردو۔ " اس نے جواب میں کوئی چوں و چرا نہ کی، اندر گیا اور اس کے اونٹوں کی قیمت لا کر اس کے ہاتھ میں دے دی۔ قریش کا مخبر یہ حال دیکھ کر حرم کی طرف دوڑا اور سرداروں کو سارا ماجرا سنا دیا اور کہنے لگا کہ واللہ آج وہ عجیب معاملہ دیکھا ہے جو کبھی نہ دیکھا تھا، حَکَم بن ہشام (ابو جہل) جب نکلا ہے تو محمد ﷺ کو دیکھتے ہی اس کا رنگ فق ہوگیا اور جب محمد ﷺ نے اس سے کہا کہ اس کا حق ادا کردو تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے حکم بن ہشام کے جسم میں جان نہیں ہے۔ (ابن ہشام، جلد 2، ص 29۔ 30)۔ یہ تھا شخصیت اور سیرت و کردار کا اثر اور وہ تھا کلام کا اثر، جس کو وہ لوگ جادو قرار دیتے تھے اور ناواقف لوگوں کو یہ کہہ کہہ کر ڈراتے تھے کہ اس شخص کے پاس نہ جانا ورنہ جادو کر دے گا۔
Top