Tafheem-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 93
وَ تَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ١ؕ كُلٌّ اِلَیْنَا رٰجِعُوْنَ۠   ۧ
وَتَقَطَّعُوْٓا : اور ٹکڑے ٹکڑے کرلیا انہوں نے اَمْرَهُمْ : اپنا کام (دین) بَيْنَهُمْ : باہم كُلٌّ : سب اِلَيْنَا : ہماری طرف رٰجِعُوْنَ : رجوع کرنے والے
مگر (یہ لوگوں کی کارستانی ہے کہ)انہوں نے آپس میں اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا 91۔۔۔۔ سب کو ہماری طرف پلٹنا ہے
سورة الْاَنْبِیَآء 91 " تم " کا خطاب تمام انسانوں کی طرف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے انسانو، تم سب حقیقت میں ایک ہی امت اور ایک ہی ملت تھے، دنیا میں جتنے نبی بھی آئے وہ سب ایک ہی دین لے کر آئے تھے، اور وہ اصل دین یہ تھا کہ صرف ایک اللہ ہی انسان کا رب ہے اور اکیلے اللہ ہی کی بندگی و پرستش کی جانی چاہیے۔ بعد میں جتنے مذاہب پیدا ہوئے اور اسی دین کو بگاڑ کر بنا لیے گئے۔ اس کی کوئی چیز کسی نے لی، اور کوئی دوسری چیز کسی اور نے، اور پھر ہر ایک نے ایک جز اس کا لیکر بہت سی چیزیں اپنی طرف سے اس کے ساتھ ملا ڈالیں۔ اس طرح یہ بیشمار ملتیں وجود میں آئیں۔ اب یہ خیال کرنا کہ فلاں نبی فلاں مذہب کا بانی تھا اور فلاں نبی نے فلاں مذہب کی بنیاد ڈالی، اور انسانیت میں یہ ملتوں اور مذہبوں کا تفرقہ انبیاء کا ڈالا ہوا ہے محض ایک غلط خیال ہے۔ محض یہ بات کہ یہ مختلف ملتیں اپنے آپ کو مختلف زمانوں اور مختلف ملکوں کے انبیاء کی طرف منسوب کر رہی ہیں، اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ملتوں اور مذہبوں کا یہ اختلاف انبیاء کا ڈالا ہوا ہے۔ خدا کے بھیجے ہوئے انبیاء دس مختلف مذہب نہیں بنا سکتے تھے اور نہ ایک خدا کے سوا کسی اور کی بندگی سکھا سکتے تھے۔
Top