Tafheem-ul-Quran - Al-Hajj : 18
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یَسْجُدُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَ الدَّوَآبُّ وَ كَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ١ؕ وَ كَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْهِ الْعَذَابُ١ؕ وَ مَنْ یُّهِنِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّكْرِمٍ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُؕ۩  ۞
اَلَمْ تَرَ : کیا تونے نہیں دیکھا اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ يَسْجُدُ لَهٗ : سجدہ کرتا ہے اس کے لیے مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَنْ : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَالشَّمْسُ : اور سورج وَالْقَمَرُ : اور چاند وَالنُّجُوْمُ : اور ستارے وَالْجِبَالُ : اور پہاڑ وَالشَّجَرُ : اور درخت وَالدَّوَآبُّ : اور چوپائے وَكَثِيْرٌ : اور بہت مِّنَ : سے النَّاسِ : انسان (جمع) وَكَثِيْرٌ : اور بہت سے حَقَّ : ثابت ہوگیا عَلَيْهِ : اس پر الْعَذَابُ : عذاب وَمَنْ : اور جسے يُّهِنِ اللّٰهُ : ذلیل کرے اللہ فَمَا لَهٗ : تو نہیں اس کے لیے مِنْ مُّكْرِمٍ : کوئی عزت دینے والا اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَفْعَلُ : کرتا ہے مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے آگے سر بسجُود ہیں 30 وہ سب جو آسمانوں میں ہیں 31 اور جو زمین میں ہیں؟ سُورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان 32 اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں۔ 33 اور جسے اللہ ذلیل و خوار کردے اُسے پھر کوئی عزّت دینے والا نہیں ہے 34 ، اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے۔ 35
سورة الْحَجّ 30 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الرعد، حاشیہ 24۔ 25، الجحل، حاشیہ 41۔ 42۔ سورة الْحَجّ 31 یعنی فرشتے، اَجرام فلکی، اور وہ سب مخلوقات جو زمین کے ماوراء دوسرے جہانوں میں ہیں، خواہ وہ انسان کی طرح ذی عقل و ذی اختیار ہوں، یا حیوانات، نباتات، جمادات اور ہوا اور روشنی کی طرح بےعقل و بےاختیار۔ سورة الْحَجّ 32 یعنی وہ جو محض مجبوراً ہی نہیں بلکہ بالارادہ اور بطوع ورغبت بھی اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں دوسرا انسانی گروہ جس کا بعد کے فقرے میں ذکر آ رہا ہے، وہ ہے جو اپنے ارادے سے خدا کے آگے جھکنے سے انکار کرتا ہے، مگر دوسری بےاختیار مخلوقات کی طرح وہ بھی قانون فطرت کی گرفت سے آزاد نہیں ہے اور سب کے ساتھ مجبوراً سجدہ کرنے والوں میں شامل ہے۔ اس کے مستحق عذاب ہونے کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں بغاوت کی روش اختیار کرتا ہے۔ سورة الْحَجّ 33 مطلب یہ ہے کہ اگرچہ ان مختلف گروہوں کے جھگڑے کا فیصلہ تو قیامت ہی کے روز چکایا جائے گا۔ لیکن کوئی آنکھیں رکھتا ہو تو وہ آج بھی دیکھ سکتا ہے کہ حق پر کون ہے اور آخری فیصلہ کس کے حق میں ہونا چاہیے۔ پوری کائنات کا نظام اس بات پر شاہد ہے کہ زمین سے آسمانوں تک ایک ہی خدا کی خدائی پورے زور اور پوری ہمہ گیری کے ساتھ چل رہی ہے۔ زمین کے ایک ذرے سے لے کر آسمان کے بڑے بڑے سیاروں تک سب ایک قانون میں جکڑے ہوئے ہیں جس سے بال برابر بھی جنبش کرنے کا کسی کو یارا نہیں ہے۔ مومن تو خیر دل سے اس کے آگے سر جھکاتا ہے، مگر وہ دہریہ جو اس کے وجود تک کا انکار کر رہا ہے اور وہ مشرک جو ایک ایک بےاختیار ہستی کے آگے جھک رہا وہ بھی اس کی اطاعت پر اسی طرح مجبور ہے جس طرح ہوا اور پانی۔ کسی فرشتے، کسی جن، کسی نبی اور ولی، اور کسی دیوی یا دیوتا کے پاس خدائی کی صفت اور اختیارات کا ادنیٰ شائبہ تک نہیں ہے کہ اس کو الوہیت اور معبودیت کا مقام دیا جاسکے، یا خداوند عالم کا ہم جنس یا مثیل ٹھیرایا جاسکے۔ کسی قانون بےحاکم اور فطرت بےصانع اور نظام بےناظم کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اتنی بڑی کائنات کو وجود میں لا سکے اور باقاعدگی کے ساتھ خود ہی چلاتا رہے اور قدرت و حکمت کے وہ حیرت انگیز کرشمے دکھا سکے جو اس کائنات کے گوشے گوشے میں ہر طرف نظر آ رہے ہیں۔ کائنات کی یہ کھلی کتاب سامنے ہوتے ہوئے بھی جو شخص انبیاء کی بات نہیں مانتا اور مختلف خود ساختہ عقیدے اختیار کر کے خدا کے بارے میں جھگڑتا ہے اس کا بر سر باطل ہونا آج بھی اسی طرح ثابت ہے جس طرح قیامت کے روز ثابت ہوگا۔ سورة الْحَجّ 34 یہاں ذلت اور عزت سے مراد حق کا انکار اور اس کی پیروی ہے، کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ ذلت اور عزت ہی کی شکل میں ظاہر ہونا ہے۔ جو شخص کھلے کھلے اور روشن حقائق کو آنکھیں کھول کر نہ دیکھے، اور سمجھانے والے کی بات بھی سن کر نہ دے وہ خود ہی ذلت و خواری کو اپنے اوپر دعوت دیتا ہے، اور اللہ وہی چیز اس کے نصیب میں لکھ دیتا ہے جو اس نے خود مانگی ہے۔ پھر جب اللہ ہی نے اس کو پیروی حق کی عزت نہ دی تو اب کون ہے جو اس کو اس عزت سے سرفراز کردے۔ سورة الْحَجّ 35 یہاں سجدہ تلاوت واجب ہے، اور سورة حج کا یہ سجدہ متفق علیہ ہے سجدہ تلاوت کی حکمت اور اس کے احکام کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الاعراف، حاشیہ 157۔
Top