Tafheem-ul-Quran - Al-Hajj : 35
الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ الصّٰبِرِیْنَ عَلٰى مَاۤ اَصَابَهُمْ وَ الْمُقِیْمِی الصَّلٰوةِ١ۙ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ
الَّذِيْنَ : وہ جو اِذَا : جب ذُكِرَ اللّٰهُ : اللہ کا نام لیا جائے وَجِلَتْ : ڈر جاتے ہیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَالصّٰبِرِيْنَ : اور صبر کرنے والے عَلٰي : پر مَآ اَصَابَهُمْ : جو انہیں پہنچے وَالْمُقِيْمِي : اور قائم کرنے والے الصَّلٰوةِ : نماز وَمِمَّا : اور اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کرتے ہیں
جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سُنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اُٹھتے ہیں، جو مصیبت بھی اُن پر آتی ہے اُس پر صبر کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ رزق ہم نے اُن کو دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ 66
سورة الْحَجّ 65 اصل میں لفظ " مُخْبِتِین " استعمال کیا گیا ہے جس کا مفہوم کسی ایک لفظ سے پوری طرح ادا نہیں ہوتا۔ اس میں تین مفہومات شامل ہیں استکبار اور غرور نفس چھوڑ کر اللہ کے مقابلے میں عجز اختیار کرنا۔ اس کی بندگی و غلامی پر مطمئن ہوجانا اس کے فیصلوں پر راضی ہوجانا۔ سورة الْحَجّ 66 اس سے پہلے ہم اس امر کی تصریح کرچکے ہیں کہ اللہ نے کبھی حرام و ناپاک مال کو اپنا رزق نہیں فرمایا ہے۔ اس لیے آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو پاک رزق ہم نے انہیں بخشا ہے اور جو حلال کمائیاں ان کو عطا کی ہیں ان میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ پھر خرچ سے مراد بھی ہر طرح کا خرچ نہیں ہے بلکہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جائز ضروریات پوری کرنا، رشتہ داروں اور ہمسایوں اور حاجت مند لوگوں کی مدد کرنا، رفاہ عام کے کاموں میں حصہ لینا، اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے مالی ایثار کرنا مراد ہے۔ بےجا خرچ، اور عیش و عشرت کے خرچ اور ریاکارانہ خرچ وہ چیز نہیں ہے جسے قرآن " انفاق " قرار دیتا ہو، بلکہ یہ اس کی اصطلاح میں اسراف اور تبذیر ہے۔ اسی طرح کنجوسی اور تنگ دلی کے ساتھ جو خرچ کیا جائے، کہ آدمی اپنے اہل وعیاں کو بھی تنگ رکھے، اور خود بھی اپنی حیثیت کے مطابق اپنی ضرورتیں پوری نہ کرے، اور خلق خدا کی مدد بھی اپنی استطاعت کے مطابق کرنے سے جی چرائے، تو اس صورت میں اگرچہ آدمی خرچ تو کچھ نہ کچھ کرتا ہی ہے، مگر قرآن کی زبان میں اس خرچ کا نام انفاق " نہیں ہے۔ وہ اس کو " بخل " اور شُحِّ نفس " کہتا ہے۔
Top