Tafheem-ul-Quran - An-Naml : 91
اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِیْ حَرَّمَهَا وَ لَهٗ كُلُّ شَیْءٍ١٘ وَّ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَۙ
اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اُمِرْتُ : مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَعْبُدَ : عبادت کروں رَبَّ : رب هٰذِهِ : اس الْبَلْدَةِ : شہر الَّذِيْ : وہ جسے حَرَّمَهَا : اس نے محترم بنایا ہے وَلَهٗ : اور اسی کے لیے كُلُّ شَيْءٍ : ہر شے وَّاُمِرْتُ : اور مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَكُوْنَ : میں رہو مِنَ : سے الْمُسْلِمِيْنَ : جمع مسلم۔ مسلمان۔ فرمانبردار
(اے محمدؐ ، اِن سے کہو)”مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اِس شہر کے ربّ کی بندگی کروں جس نے اِسے حرم بنایا ہے اور جو ہر چیز کا مالک ہے۔110 مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلم بن کر رہوں
سورة النمل 110 یہ سورة چونکہ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جبکہ اسلام کی دعوت ابھی صرف مکہ معظمہ تک محدود تھی اور مخاطب صرف اس شہر کے لوگ تھے، اس لیے فرمایا " مجھے اس شہر کے رب کی بندگی کا حکم دیا گیا ہے "۔ اس کے ساتھ اس رب کی خصوصیت یہ بیان کی گئی کہ اس نے ا سے حرم بنایا ہے۔ اس سے کفار مکہ مکہ کو متنبہ کرنا مقصود ہے کہ جس خدا کا تم پر یہ احسان عظیم ہے کہ اس نے عرب کی انتہائی بدامنی اور فساد و خونریزی سے لبریز سرزمین میں تمہارے اس شہر کو امن کا گہوارہ بنا رکھا ہے، اور جس کے فضل سے تمہارا یہ شہر پورے ملک عرب کا مرکز عقیدت بنا ہوا ہے تم اس کی ناشکری کرنا چاہو تو کرتے رہو، مگر مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کا شکر گزار بندہ بنوں اور اسی کے آگے سر نیاز جھکاؤں، تم جنہیں معبود بنائے بیٹھے ہو ان میں سے کسی کی یہ طاقت نہ تھی کہ اس شہر کو حرم بنا دیتا اور عرب کے جنگجو اور غارت گر قبیلوں سے اس کا احترام کراسکتا۔ میرے لیے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ اصل محسن کو چھوڑ کر ان کے آگے جھکوں جن کا کوئی ذرہ برابر بھی احسان مجھ پر نہیں ہے۔
Top