Tafheem-ul-Quran - Al-Ankaboot : 46
وَ لَا تُجَادِلُوْۤا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ١ۖۗ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ وَ قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ وَ اِلٰهُنَا وَ اِلٰهُكُمْ وَاحِدٌ وَّ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ
وَلَا تُجَادِلُوْٓا : اور تم نہ جھگڑو اَهْلَ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اِلَّا : مگر بِالَّتِيْ : اس طریقہ سے جو ھِىَ اَحْسَنُ ڰ : وہ بہتر اِلَّا : بجز الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا : جن لوگوں نے ظلم کیا مِنْهُمْ : ان (میں) سے وَقُوْلُوْٓا : اور تم کہو اٰمَنَّا بالَّذِيْٓ : ہم ایمان لائے اس پر جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْنَا : ہماری طرف وَاُنْزِلَ : اور نازل کیا گیا اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف وَاِلٰهُنَا : اور ہمارا معبود وَاِلٰهُكُمْ : اور تمہارا معبود وَاحِدٌ : ایک وَّنَحْنُ : اور ہم لَهٗ : اس کے مُسْلِمُوْنَ : فرمانبردار (جمع)
80 اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقہ سے81۔۔۔۔ سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظالم ہوں82 --۔۔۔۔ اور ان سے کہو کہ”ہم ایمان لائے ہیں اس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اس چیز پر بھی جو تمہاری طرف بھیجی گئی تھی، ہمارا خدا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اسی کے مسلم(فرمابردار)ہیں۔“83
سورة العنکبوت 80 واضح رہے کہ آگے چل کر اسی سورة میں ہجرت کی تلقین کی جارہی ہے۔ اس وقت حبش ہی ایک ایسا مامن تھا جہاں مسلمان ہجرت کر کے جاسکتے تھے۔ اور حبش پر اس زمانے میں عیسائیوں کا غلبہ تھا، اس لیے ان آیات میں مسلمانوں کو ہدایات دی جارہی ہیں کہ اہل کتاب سے جب سابقہ پیش آئے تو ان سے دین کے معاملہ میں بحث و کلام کا کیا انداز اختیار کریں۔ سورة العنکبوت 81 یعنی مباحثہ معقول دلائل کے ساتھ، مہذب و شائستہ زبان میں، اور افہام و تفہیم کی اسپرٹ میں ہونا چاہیے، تاکہ جس شخص سے بحث کی جارہی ہو اس کے خیالات کی اصلاح ہوسکے۔ مبلغ کو فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ وہ مخاطب کے دل کا دروازہ کھول کر حق بات اس میں اتار دے اور اسے راہ راست پر لائے۔ اس کو ایک پہلوان کی طرح نہیں لڑنا چاہیے جس کا مقصد اپنے مد مقابل کو نیچا دکھانا ہوتا ہے۔ بلکہ اس کو ایک حکیم کی طرح چارہ گری کرنی چاہیے جو مریض کا علاج کرتے ہوئے ہر وقت یہ بات ملحوظ رکھتا ہے کہ اس کی اپنی کسی غلطی سے مریض کا مرض اور زیادہ بڑھ نہ جائے، اور اس امر کی پوری کوشش کرتا ہے کہ کم سے کم تکلیف کے ساتھ مریض شفا یاب ہوجائے۔ یہ ہدایت اس مقام پر تو موقع کی مناسبت سے اہل کتاب کے ساتھ مباحثہ کرنے کے معاملہ میں دی گئی ہے، مگر یہ اہل کتاب کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ تبلیغ دین کے باب میں ایک عام ہدایت ہے جو قرآن مجید میں جگہ جگہ دی گئی ہے۔ مثلا اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ۔ (النحل، آیت 125) " دعوت دو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ پندو نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو "۔ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۭ اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ۔ (حم السجدہ، آیت 34) " بھلائی اور برائی یکساں نہیں ہیں (مخالفین کے حملوں کی) مدافعت ایسے طریقہ سے کرو جو بہترین ہو تم دیکھو گے کہ وہی شخص جس کے اور تمہارے درمیان عداوت تھی وہ ایسا ہوگیا جیسے گرم جوش دوست ہے۔ اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۭ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَصِفُوْنَ۔ (المومنون، آیت 96) (تم بدی کو اچھے ہی طریقہ سے دفع کرو ہمیں معلوم ہے جو باتیں وہ (تمہارے خلاف) بناتے ہیں۔ خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ۔ وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ باللّٰهِ۔ (الاعراف، آیت 199۔ 200) " درگزر کی روش اختیار کرو، بھلائی کی تلقین کرو، اور جاہلوں کے منہ نہ لگو، اور اگر (ترکی بہ ترکی جواب دینے کے لیے) شیطان تمہیں اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو "۔ سورة العنکبوت 82 یعنی جو لوگ ظلم کا رویہ اختیار کریں ان کے ساتھ ان کے ظلم کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف رویہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہر وقت ہر حال میں اور ہر طرح کے لوگوں کے مقابلہ میں نرم و شیریں ہی نہ بنے رہنا چاہیے کہ دنیا داعی حق کی شرافت کو کمزوری اور مسکنت سمجھ بیٹھے۔ اسلام اپنے پیرو وں کو شائستگی، شرافت اور معقولیت تو ضرور سکھاتا ہے مگر عاجزی و مسکینی نہیں سکھاتا کہ وہ ہر ظالم کے لیے نرم چارہ بن کر رہیں۔ سورة العنکبوت 83 ان فقروں میں اللہ تعالیٰ نے خود اس عمدہ طریق بحث کی طرف رہنمائی فرمائی ہے جسے تبلیغ حق کی خدمت انجام دینے والوں کو اختیار کرنا چاہیے۔ اس میں یہ سکھایا گیا ہے کہ جس شخص سے تمہیں بحث کرنی ہو اس کی گمراہی کو بحث کا نقطہ آغاز نہ بناؤ، بلکہ بات اس سے شروع کرو کہ حق و صداقت کے وہ کونے اجزاء ہیں جو تمہارے اور اس کے درمیان مشترک ہیں، یعنی آغاز کلام نکات اختلاف سے نہیں بلکہ نکات اتفاق سے ہونا چاہیے پھر انہی متفق علیہ امور سے استدلال کر کے مخاطب کو یہ سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ جن امور میں تمہارے اور اس کے درمیان اختلاف ہے ان میں تمہارا مسلک متفق علیہ بنیادوں سے مطابقت رکھتا ہے اور اس کا مسلک ان سے متضاد ہے۔ اس سلسلے میں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اہل کتاب مشرکین عرب کی طرح وحی و رسالت اور توحید کے منکر نہ تھے بلکہ مسلمانوں کی طرح ان سب حقیقتوں کو مانتے تھے۔ ان بنیادی امور میں اتفاق کے بعد اگر کوئی بڑٰ چیز بنیاد اختلاف ہوسکتی تھی تو وہ یہ کہ مسلمان ان کے ہاں آئی ہوئی آسمانی کتابوں کو نہ مانتے اور اپنے ہاں آئی ہوئی کتاب پر ایمان لانے کی انہیں دعوت دیتے اور اس کے نہ ماننے پر انہیں کافر قرار دیتے۔ یہ جھگڑے کی بڑی مضبوط وجہ ہوتی، لیکن مسلمانوں کا موقف اس سے مختلف تھا۔ وہ تمام ان کتابوں کو برحق تسلیم کرتے تھے جو اہل کتاب کے پاس موجود تھیں، اور پھر اس وحی پر ایمان لائے تھے جو محمد ﷺ پر نازل ہوئی تھی۔ اس کے بعد یہ بتانا اہل کتاب کا کام تھا کہ کس معقول وجہ سے وہ خدا ہی کی نازل کردہ ایک کتاب کو مانتے اور دوسری کتاب کا انکار کرتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں مسلمانوں کو تلقین فرمائی ہے کہ اہل کتاب سے جب سابقہ پیش آئے تو سب سے پہلے مثبت طور پر اپنا یہی موقف ان کے سامنے پیش کرو۔ ان سے کہو کہ جس خدا کو تم مانتے ہو اسی کو ہم مانتے ہیں اور ہم اس کے فرماں بردار ہیں۔ اس کی طرف سے جو احکام و ہدایات اور تعلیمات بھی آئی ہیں ان سب کے آگے ہمارا سر تسلیم خم ہے، خواہ وہ تمہارے ہاں آئی ہوں یا ہمارے ہاں۔ ہم تو حکم کے بندے ہیں۔ ملک اور قوم اور نسل کے بندے نہیں نہیں کہ ایک جگہ خدا کا حکم آئے تو ہم مانیں اور اسی خدا کا حکم دوسری جگہ آئے تو ہم اس کو نہ مانیں۔ قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ دہرائی گئی ہے اور خصوصا اہل کتاب سے جہاں سابقہ پیش آیا ہے وہاں تو اسے زور دے کر بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ البقرہ آیات 4۔ 136۔ 177۔ 285۔ آل عمران آیت 84۔ النساء 136۔ 150 تا 152۔ 162 تا 164۔ الشوری 13۔
Top