Tafheem-ul-Quran - Al-Israa : 60
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا١ۗۖ اَللّٰهُ یَرْزُقُهَا وَ اِیَّاكُمْ١ۖ٘ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَكَاَيِّنْ : اور بہت سے مِّنْ دَآبَّةٍ : جانور جو لَّا تَحْمِلُ : نہیں اٹھاتے رِزْقَهَا : اپنی روزی اَللّٰهُ : اللہ يَرْزُقُهَا : انہیں روزی دیتا ہے وَاِيَّاكُمْ : اور تمہیں بھی وَهُوَ : اور وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
کتنے ہی جانور ہیں جو اپنا رزق اُٹھائے نہیں پھرتے، اللہ ان کو رزق دیتا ہے اور تمہارا رازق بھی وہی ہے، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔99
سورة العنکبوت 99 یعنی ہجرت کرنے میں تمہیں فکر جان کی طرح فکر روزگار سے بھی پریشان نہ ہونا چاہیے۔ آخر یہ بیشمار چرند و پرند اور آبی حیوانات جو تمہاری آنکھوں کے سامنے ہو اور خشکی اور پانی میں پھر رہے ہیں، ان میں سے کون اپنا رزق اٹھائے پھرتا ہے ؟ اللہ ہی تو ان سب کو پال رہا ہے، جہاں جاتے ہیں اللہ کے فضل سے ان کو کسی نہ کسی طرح رزق مل ہی جاتا ہے۔ لہذا تم یہ سوچ سوچ کر ہمت نہ ہارو کہ اگر ایمان کی خاطر گھر بار چھوڑ کر نکل گئے تو کھائیں گے کہاں سے۔ اللہ جہاں سے اپنی بیشمار مخلوق کو رزق دے رہا ہے، تمہیں بھی دے گا۔ ٹھیک یہی بات ہے جو سیدنا مسیح ؑ نے اپنے حواریوں سے فرمائی تھی۔ انہوں نے فرمایا " کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کرسکتا، کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محب، یا ایک سے ملا رہے گا اور دوسرے کو ناچیز جانے گا۔ تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کرسکتے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے۔ کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں ؟ ہوا کے پرندوں کو دیکھو کہ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے ہیں، نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں۔ پھر بھی تمہارا آسمانی باپ ان کو کھلاتا ہے۔ کیا تم ان سے زیادہ قدر نہیں رکھتے ؟ تم میں سے ایسا کون ہے جو فکر کر کے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے ؟ اور پوشاک کے لیے کیوں فکر کرتے ہو ؟ جنگلی سو سن کے درختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس بڑھتے ہیں، وہ نہ محنت کرتے ہیں نہ کا تتے ہیں، پھر بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان و شوکت کے ان میں سے کسی کے مانند لمبس نہ تھا۔ پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے اور کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اسے کم اعتقادو تم کو کیوں نہ پہنائے گا۔ اس لیے فکر مند نہ ہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے۔ ان سب چیزوں کی تلاش میں تو غیر قومیں رہتی ہیں۔ تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم ان سب چیزوں کے محتاج ہو۔ تم پہلے اس کی بادشاہی اور اس کی راست بازی کی تلاش کرو۔ یہ سب چیزیں بھی تمہیں مل جائیں گی۔ کل کے لیے فکر نہ کرو۔ کل کا دن اپنی فکر آپ کرلے گا۔ آج کے لیے آج ہی کا دکھ کافی ہے "۔ (متی۔ باب 6۔ آیات 24۔ 34) قرآن اور انجیل کے ان ارشادات کا پس منظر ایک ہی ہے۔ دعوت حق کی راہ میں ایک مرحلہ ایسا آجاتا ہے جس میں ایک حق پرست آدمی کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں رہتا کہ عالم اسباب کے تمام سہاروں سے قطع نظر کر کے محض اللہ کے بھروسے پر جان جوکھوں کی بازی لگا دے۔ ان حالات میں وہ لوگ کچھ نہیں کرسکتے جو حساب لگا لگا کر مستقبل کے امکانات کا جائزہ لیتے ہیں اور قدم اٹھانے سے پہلے جان کے تحفظ اور رزق کے حصول کی ضمانتیں تلاش کرتے ہیں، درحقیقت اس طرح کے حالات بدلتے ہی ان لوگوں کی طاقت سے ہیں جو سر ہتھیلی پر لے کر اٹھ کھڑے ہوں اور ہر خطرے کو انگیز کرنے کے لیے بےدھڑک تیار ہوجائیں۔ انہین کی قربانیاں آخر کار وہ وقت لاتی ہیں جب اللہ کا کلمہ بلند ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں سارے کلنے پست ہو کر رہ جاتے ہیں۔
Top