Tafheem-ul-Quran - Yaseen : 76
فَلَا یَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ١ۘ اِنَّا نَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ
فَلَا يَحْزُنْكَ : پس آپ کو مغموم نہ کرے قَوْلُهُمْ ۘ : ان کی بات اِنَّا نَعْلَمُ : بیشک ہم جانتے ہیں مَا يُسِرُّوْنَ : جو وہ چھپاتے ہیں وَمَا : اور جو يُعْلِنُوْنَ : وہ ظاہر کرتے ہیں
اچھا، جو باتیں یہ بنا رہے ہیں وہ تمہیں رنجیدہ نہ کریں، اِن کی چھُپی  اور کھُلی سب باتوں کو ہم جانتے ہیں۔ 63
سورة یٰسٓ 63 خطاب ہے نبی ﷺ سے۔ اور کھلی اور چھپی باتوں کا اشارہ اس طرف ہے کہ کفار مکہ کے وہ بڑے بڑے سردار جو آپ کے خلاف جھوٹ کے طوفان اٹھا رہے تھے، وہ اپنے دلوں میں جانتے، اور اپنی نجی محفلوں میں مانتے تھے کہ نبی ﷺ پر جو الزامات وہ لگا رہے ہیں وہ سراسر بےاصل ہیں۔ وہ لوگوں کو آپ کے خلاف بد گمان کرنے کے لیے آپ کو شاعر، کاہن، ساحر، مجون اور نہ معلوم کیا کیا کہتے تھے، مگر خود ان کے ضمیر اس بات کے قائل تھے، اور آپس میں وہ ایک دوسرے کے سامنے اقرار کرتے تھے کہ سب جھوٹی باتیں ہیں جو محض آپ کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے وہ گھڑ رہے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ ان لوگوں کی بیہودہ باتوں پر رنجیدہ نہ ہو۔ سچائی کا مقابلہ جھوٹ سے کرنے والے آخر کار اس دنیا میں بھی ناکام ہوں گے اور آخرت میں بھی اپنا برا انجام دیکھ لیں گے۔
Top