Tafheem-ul-Quran - An-Nisaa : 51
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوْتِ وَ یَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا هٰۤؤُلَآءِ اَهْدٰى مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يُؤْمِنُوْنَ : وہ مانتے ہیں بِالْجِبْتِ : بت (جمع) وَالطَّاغُوْتِ : اور سرکش (شیطان) وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) هٰٓؤُلَآءِ : یہ لوگ اَهْدٰى : راہ راست پر مِنَ : سے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) سَبِيْلًا : راہ
کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کے عِلم میں سے کچھ حصّہ دیا گیا ہے اور اُن کا حال یہ ہے کہ جِبْت81 اور طاغوت82 کو مانتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں۔83
سورة النِّسَآء 81 جِبْت کے اصل معنی بےحقیقت، بےاصل اور بےفائدہ چیز کے ہیں۔ اسلام کی زبان میں جادو، کہانت (جوتش) ، فال گیری، ٹونے ٹوٹکے، شگون اور مہورت اور تمام دوسری وہمی و خیالی باتوں کو ”جبت“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چناچہ حدیث میں آیا ہے النیاقۃ والطرق والطیر من الجبت۔ یعنی جانوروں کی آوازوں سے فال لینا، زمین پر جانوروں کے نشانات قدم سے شگون نکالنا اور فال گیری کے دوسرے طریقے سب ”جِبت“ کا مفہوم وہی ہے جسے ہم اردو زبان میں اوہام کہتے ہیں اور جس کے لیے انگریزی میں (Superstitions) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ سورة النِّسَآء 82 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورة بقرہ 286 و 288۔ سورة النِّسَآء 83 علماء یہود کی ہٹ دھرمی یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ جو لوگ محمد ﷺ پر ایمان لائے تھے ان کو وہ مشرکین عرب کی بہ نسبت زیادہ گمراہ قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ ان سے تو یہ مشرکین ہی زیادہ راہ راست پر ہیں۔ حالانکہ وہ صریح طور پر دیکھ رہے تھے کہ ایک طرف خالص توحید ہے جس میں شرک کا شائبہ تک نہیں اور دوسری طرف صریح بت پرستی ہے جس کی مذمت سے ساری بائیبل بھری پڑی ہے۔
Top