Tafheem-ul-Quran - Al-Ghaafir : 64
اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً وَّ صَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَ رَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ١ۖۚ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ
اَللّٰهُ الَّذِيْ : اللہ وہ جس نے جَعَلَ : اس نے بنایا لَكُمُ : تمہارے لئے الْاَرْضَ : زمین قَرَارًا : قرارگاہ وَّالسَّمَآءَ : اور آسمان بِنَآءً : چھت وَّصَوَّرَكُمْ : اور تمہیں صورت دی فَاَحْسَنَ : تو بہت اچھی صُوَرَكُمْ : تمہیں صورت دی وَرَزَقَكُمْ : اور تمہیں رزق دیا مِّنَ الطَّيِّبٰتِ ۭ : پاکیزہ چیزیں ذٰلِكُمُ : یہ ہے اللّٰهُ : اللہ رَبُّكُمْ ښ : تمہارا پروردگار فَتَبٰرَكَ : سو برکت والا اللّٰهُ : اللہ رَبُّ : پروردگار الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو جائے قرار بنایا، 89اور اُوپر آسمان کا گُنبد بنا دیا۔90 جس نے تمہاری صُورت بنائی اور بڑی ہی عمدہ بنائی۔ جس نے تمہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا۔91  وہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں)تمہارا ربّ ہے۔ بے حساب برکتوں والا ہے وہ کائنات کا ربّ
سورة الْمُؤْمِن 89 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد سوم، النمل، حواشی 74۔ 75 سورة الْمُؤْمِن 90 یعنی تمہیں کھلی فضا میں نہیں چھوڑ دیا گیا کہ عالم بالا کی آفات بارش کی طرح برس کر تم کو تہس نہس کردیں، بلکہ زمین کے اوپر ایک نہایت مستحکم سماوی نظام (جو دیکھنے والی آنکھ کو گنبد کی طرح نظر آتا ہے) تعمیر کردیا جس سے گزر کر کوئی تباہ کن چیز تم تک نہیں پہنچ سکتی، حتیٰ کہ آفاق کی مہلک شعاعیں تک نہیں پہنچ سکتیں، اور اسی وجہ سے تم امن و چین کے ساتھ زمین پر جی رہے ہو۔ سورة الْمُؤْمِن 91 یعنی تمہارے پیدا کرنے سے پہلے تمہارے لیے اس قدر محفوظ اور پر امن جائے قرار مہیا کی۔ پھر تمہیں پیدا کیا تو اس طرح کہ ایک بہترین جسم، نہایت موزوں اعضاء اور نہایت اعلیٰ درجہ کی جسمانی و ذہنی قوتوں کے ساتھ تم کو عطا کیا۔ یہ سیدھا قامت، یہ ہاتھ اور یہ پاؤں، یہ آنکھ ناک اور یہ کان، یہ بولتی ہوئی زبان اور یہ بہترین صلاحیتوں کا مخزن دماغ تم خود بنا کر نہیں لے آئے تھے، نہ تمہاری ماں اور تمہارے باپ نے انہیں بنایا تھا، نہ کوئی نبی یا ولی یا دیوتا میں یہ قدرت تھی کہ انہیں بناتا۔ ان کا بنانے والا وہ حکیم و رحیم قادر مطلق تھا جس نے انسان کو وجود میں لانے کا جب فیصلہ کیا تو اسے دنیا میں کام کرنے کے لیے ایسا بےنظیر جسم دے کر پیدا کیا۔ پھر پیدا ہوتے ہی اس کی مہربانی سے تم نے اپنے لیے پاکیزہ رزق کا ایک وسیع خوان یغما بچھا ہوا پایا۔ کھانے اور پینے کا ایسا پاکیزہ سامان جو زہریلا نہیں بلکہ صحت بخش ہے، کڑوا کسیلا اور بد مزہ نہیں بلکہ خوش ذائقہ ہے، سڑا بسا اور بدبو دار نہیں بلکہ خوش رائحہ ہے، بےجان پھوک نہیں بلکہ ان حیاتینوں اور مفید غذائی مادوں سے مالا مال ہے جو تمہارے جسم کی پرورش اور نشو و نما کے لیے موزوں ترین ہیں۔ یہ پانی، یہ غلے، یہ ترکاریاں، یہ پھل، یہ دودھ، یہ شہد، یہ گوشت، یہ نمک مرچ اور مسالے، جو تمہارے، جو تمہارے تغذیے کے لیے اس قدر موزوں اور تمہیں زندگی کی طاقت ہی نہیں، زندگی کا لطف دینے کے لیے بھی اس قدر مناسب ہیں، آخر کس نے اس زمین پر اتنی افراط کے ساتھ مہیا کیے ہیں، اور کس نے یہ انتظام کیا ہے کہ غذا کے یہ بےحساب خزانے زمین سے پے در پے نکلتے چلے آئیں اور ان کی رسد کا سلسلہ کبھی ٹوٹنے نہ پائے ؟ یہ رزق کا انتظام نہ ہوتا اور بس تم پیدا کردیے جاتے تو سوچو کہ تمہاری زندگی کا کیا رنگ ہوتا۔ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ تمہارا پیدا کرنے والا محض خالق ہی نہیں بلکہ خالق حکیم اور رب رحیم ہے ؟ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم، ہود، حواشی 6۔ 7، جلد سوم، النمل، حواشی 73 تا 83)
Top