Tafheem-ul-Quran - Az-Zukhruf : 13
لِتَسْتَوٗا عَلٰى ظُهُوْرِهٖ ثُمَّ تَذْكُرُوْا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ اِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْهِ وَ تَقُوْلُوْا سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِیْنَۙ
لِتَسْتَوٗا : تاکہ تم چڑھ بیٹھو عَلٰي ظُهُوْرِهٖ : ان کی پشتوں پر ثُمَّ تَذْكُرُوْا : پھر تم یاد کرو نِعْمَةَ رَبِّكُمْ : اپنے رب کی نعمت کو اِذَا اسْتَوَيْتُمْ : جب سوار ہو تم عَلَيْهِ : اس پر وَتَقُوْلُوْا : اور تم کہو سُبْحٰنَ الَّذِيْ : پاک ہے وہ ذات سَخَّرَ لَنَا : جس نے مسخر کیا ہمارے لیے ھٰذَا : اس کو وَمَا كُنَّا : اور نہ تھے ہم لَهٗ : اس کے لیے مُقْرِنِيْنَ : قابو میں لانے والے
اور جب اُن پر بیٹھو تو اپنے ربّ کا احسان یاد کرو اور کہو   کہ ”پاک  ہے وہ جس نے ہمارے لیے اِن چیزوں کر مسخّر کر دیا  ورنہ ہم انہیں قابُو میں لانے کی طاقت نہ رکھتے تھے ،13
سورة الزُّخْرُف 13 یعنی زمین کی تمام مخلوقات میں سے تنہا انسان کو کشتیاں اور جہاز چلانے اور سواری کے لیے جانور استعمال کرنے کی یہ مقدرت اللہ تعالیٰ نے اس لیے تو نہیں دی تھی کہ وہ غلے کی بوریوں کی طرح ان پر لد جائے اور کبھی نہ سوچے کہ آخر وہ کون ہے جس نے ہمارے لیے بحر ذخّار میں کشتیاں دوڑانے کے امکانات پیدا کیے، اور جس نے جانوروں کی بیشمار اقسام میں سے بعض کو اس طرح پیدا کیا کہ وہ ہم سے بدرجہا زیادہ طاقتور ہونے کے باوجود ہمارے تابع فرمان بن جاتے ہیں اور ہم ان پر سوار ہو کر جدھر چاہتے ہیں انہیں لیے پھرتے ہیں۔ ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانا اور نعمت دینے والے کو فراموش کردینا، دل کے مردہ اور عقل و ضمیر کے بےحس ہونے کی علامت ہے۔ ایک زندہ اور حساس قلب و ضمیر رکھنے والا انسان تو ان سواریوں پر جب بیٹھے گا تو اس کا دل احساس نعمت اور شکر نعمت کے جذبے سے لبریز ہوجائے گا۔ وہ پکار اٹھے گا کہ پاک ہے وہ ذات جس نے میرے لیے ان چیزوں کو مسخر کیا۔ پاک ہے اس سے کہ اس کی ذات وصفات اور اختیارات میں کوئی اس کا شریک ہو۔ پاک ہے اس کمزوری سے کہ اپنی خدائی کا کام خود چلانے سے وہ عاجز ہو اور دوسرے مددگار خداؤں کی اسے حاجت پیش آئے۔ پاک ہے اس سے کہ میں ان نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے میں اس کے ساتھ کسی اور کو شریک کروں۔ اس آیت کے منشا کی بہترین عملی تفسیر رسول اللہ ﷺ کے وہ اذکار ہیں جو سواریوں پر بیٹھتے وقت آپ ﷺ کی زبان مبارک پر جاری ہوتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ جب سفر پر جانے کے لیے سواری پر بیٹھتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے، پھر یہ آیت پڑھتے، اور اس کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ اللھم انی اسألُکَ فی سفری ھٰذا البرَّ و التقویٰ ، ومن العمل ماترضیٰ ، اللھم ھون لنا السفر، واطْولَنا البعید، اللھم انت الصاحب فی السفر، والخلیفۃُ فی الاھل، اللھم اَصْحِبْنا فی سفرنا واخْلُفْنَا فی اھلنا (مسند احمد، مسلم، ابوداؤد نسائی، دارمی، ترمذی)۔ " خدایا میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے اس سفر میں مجھے نیکی اور تقویٰ اور ایسے عمل کی توفیق دے جو تجھے پسند ہو۔ خدایا ہمارے لیے سفر کو آسان کر دے اور لمبی مسافت کو لپیٹ دے، خدایا تو ہی سفر کا ساتھی اور ہمارے پیچھے ہمارے اہل و عیال کا نگہبان ہے، خدایا ہمارے سفر میں ہمارے ساتھ اور پیچھے ہمارے گھر والوں کی خبر گیری فرما۔ " حضرت علی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے بسم اللہ کہہ کر رکاب میں پاؤں رکھا، پھر سوار ہونے کے بعد فرمایا الحمد للہ، سبحان الذی سخر لنا ھٰذا ..........، پھر تین مرتبہ الحمد للہ اور تین دفعہ اللہ اکبر کہا، پھر فرمایا سبحانک، لا اِلٰہ الا انت، قد ظلمت نفسی فاغفرلی۔ اس کے بعد آپ ہنس دیے۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ آپ ہنسے کس بات پر ؟ فرمایا، بندہ جب ربِّ اغْفِرْلِیْ کہتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کو اس کی یہ بات بڑی پسند آتی ہے، وہ فرماتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا مغفرت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ (احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی وغیرہ)۔ ایک صاحب ابو مجلز بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں جانور پر سوار ہوا اور میں نے آیت سبحانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا پڑھی۔ حضرت حسن ؓ نے فرمایا کیا اس طرح کرنے کا تمہیں حکم دیا گیا ہے ؟ میں نے عرض کیا پھر کیا کہوں ؟ فرمایا کہو کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمیں اسلام کی ہدایت دی، شکر ہے اس کا کہ اس نے محمد ﷺ کو بھیج کر ہم پر احسان فرمایا، شکر ہے اس کا کہ اس نے ہمیں اس بہترین امت میں داخل کیا جو خلق خدا کے لیے نکالی گئی ہے، اس کے بعد یہ آیت پڑھو (ابن جریر۔ احکام القرآن للجصّاص)۔
Top