Tafheem-ul-Quran - Az-Zukhruf : 42
اَوْ نُرِیَنَّكَ الَّذِیْ وَعَدْنٰهُمْ فَاِنَّا عَلَیْهِمْ مُّقْتَدِرُوْنَ
اَوْ نُرِيَنَّكَ : یا ہم دکھائیں آپ کو الَّذِيْ : وہ چیز وَعَدْنٰهُمْ : وعدہ کیا ہم نے ان سے فَاِنَّا : تو بیشک ہم عَلَيْهِمْ : ان پر مُقْتَدِرُوْنَ : قدرت رکھنے والے
یا تم کو آنکھوں  سے  اِن کا وہ انجام دکھا دیں جس کا ہم نے  اِن سے وعدہ کیا ہے ، ہمیں اِن پر پُوری قدرت حاصل ہے۔37
سورة الزُّخْرُف 37 اس ارشاد کا مطلب اس ماحول کو نگاہ میں رکھنے سے ہی اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس میں یہ بات فرمائی گئی ہے۔ کفار مکہ یہ سمجھ رہے تھے کہ محمد ﷺ کی ذات ہی ان کے لیے مصیبت بنی ہوئی ہے، یہ کانٹا درمیان سے نکل جائے تو پھر سب اچھا ہوجائے گا۔ اسی گمان فاسد کی بنا پر وہ شب و روز بیٹھ بیٹھ کر مشورے کرتے تھے کہ آپ کو کسی نہ کسی طرح ختم کردیا جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ ان کی طرف سے رخ پھیر کر اپنے نبی کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تمہارے رہنے یا نہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تم زندہ رہو گے تو تمہاری آنکھوں کے سامنے ان کی شامت آئے گی، اٹھا لیے جاؤ گے تو تمہارے پیچھے ان کی خبر لی جائے گی۔ شامت اعمال اب ان کی دامنگیر ہوچکی ہے جس سے یہ بچ نہیں سکتے۔
Top