Tafheem-ul-Quran - Al-An'aam : 132
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَرْفَعُوْٓا : نہ اونچی کرو اَصْوَاتَكُمْ : اپنی آوازیں فَوْقَ : اوپر، پر صَوْتِ النَّبِيِّ : نبی کی آواز وَلَا تَجْهَرُوْا : اور نہ زور سے بولو لَهٗ : اس کے سامنے بِالْقَوْلِ : گفتگو میں كَجَهْرِ : جیسے بلند آواز بَعْضِكُمْ : تمہارے بعض (ایک) لِبَعْضٍ : بعض (دوسرے) سے اَنْ : کہیں تَحْبَطَ : اکارت ہوجائیں اَعْمَالُكُمْ : تمہارے عمل وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تَشْعُرُوْنَ : نہ جانتے (خبر بھی نہ) ہو
اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ، اپنی آواز  نبی کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبی ؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو،3 کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔4
سورة الْحُجُرٰت 3 یہ وہ ادب ہے جو رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں بیٹھنے والوں اور آپ کی خدمت میں حاضر ہونے والوں کو سکھایا گیا تھا۔ اس کا منشا یہ تھا کہ حضور ﷺ کے ساتھ ملاقات اور بات چیت میں اہل ایمان آپ کا انتہائی احترام ملحوظ رکھیں۔ کسی شخص کی آواز آپ کی آواز سے بلند تر نہ ہو۔ آپ سے خطاب کرتے ہوئے لوگ یہ بھول نہ جائیں کہ وہ کسی عام آدمی یا اپنے برابر والے سے نہیں بلکہ اللہ کے رسول سے مخاطب ہیں۔ اس لیے عام آدمیوں کے ساتھ گفتگو اور آپ کے ساتھ گفتگو میں نمایاں فرق ہونا چاہیے اور کسی کو آپ سے اونچی آواز میں کلام نہ کرنا چاہیے۔ یہ ادب اگرچہ نبی ﷺ کی مجلس کے لیے سکھایا گیا تھا اور اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو حضور ﷺ کے زمانے میں موجود تھے، مگر بعد کے لوگوں کو بھی ایسے تمام مواقع پر یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے جب آپ کا ذکر ہو رہا ہو، یا آپ کا کوئی حکم سنایا جائے، یا آپ کی احادیث بیان کی جائیں۔ اس کے علاوہ اس آیت سے یہ ایماء بھی نکلتا ہے کہ لوگوں کو اپنے بزرگ تر اشخاص کے ساتھ گفتگو میں کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔ کسی شخص کا اپنے بزرگوں کے سامنے اس طرح بولنا جس طرح وہ اپنے دوستوں یا عام آدمیوں کے سامنے بولتا ہے، دراصل اس بات کی علامت ہے کہ اس کے دل میں ان کے لیے کوئی احترام موجود نہیں ہے اور وہ ان میں اور عام آدمیوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتا۔ سورة الْحُجُرٰت 4 اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں ذات رسول ﷺ کی عظمت کا کیا مقام ہے۔ رسول پاک ﷺ کے سوا کوئی شخص، خواہ بجائے خود کتنا ہی قابل احترام ہو، بہرحال یہ حیثیت نہیں رکھتا کہ اس کے ساتھ بےادبی خدا کے ہاں اس سزا کی مستحق ہو جو حقیقت میں کفر کی سزا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ ایک بد تمیزی ہے، خلاف تہذیب حرکت ہے۔ مگر رسول اللہ ﷺ کے احترام میں ذرا سی کمی بھی اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس سے آدمی کی عمر بھر کی کمائی غارت ہو سکتی ہے۔ اس لیے آپ کا احترام دراصل اس خدا کا احترام ہے جس نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور آپ کے احترام میں کمی کے معنی خدا کے احترام میں کمی کے ہیں۔
Top