Tafheem-ul-Quran - At-Tur : 36
اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ١ۚ بَلْ لَّا یُوْقِنُوْنَؕ
اَمْ خَلَقُوا : یا انہوں نے پیدا کیے السَّمٰوٰتِ : آسمان وَالْاَرْضَ ۚ : اور زمین بَلْ لَّا يُوْقِنُوْنَ : بلکہ وہ یقین نہیں کرتے
یا زمین اور آسمانوں کو انہوں نے پیدا کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے۔ 28
سورة الطُّوْر 28 اس سے پہلے جو سوالات چھیڑے گئے تھے وہ کفار مکہ کو یہ احساس دلانے کے لیے تھے کہ محمد ﷺ کے دعوائے رسالت کو جھٹلانے کے لیے جو باتیں وہ بنا رہے ہیں وہ کس قدر غیر معقول ہیں۔ اب اس آیت میں ان کے سامنے یہ سوال رکھا گیا ہے کہ جو دعوت محمد ﷺ پیش کر رہے ہیں آخر اس میں وہ بات کیا ہے جس پر تم لوگ اس قدر بگڑ رہے ہو۔ وہ یہی تو کہہ رہے ہیں کہ اللہ تمہارا خالق ہے اور اسی کی تم کو بندگی کرنی چاہیے۔ اس پر تمہارے بگڑنے کی آخر کیا معقول وجہ ہے ؟ کیا تم خود بن گئے ہو، کسی بنانے والے نے تمہیں نہیں بنایا ؟ یا اپنے بنانے والے تم خود ہو ؟ یا یہ وسیع کائنات تمہاری بنائی ہوئی ہے ؟ اگر ان میں سے کوئی بات بھی صحیح نہیں ہے اور تم خود مانتے ہو کہ تمہارا خالق بھی اللہ ہی ہے اور اس کائنات کا خالق بھی وہی ہے، تو اس شخص پر تمہیں غصہ کیوں آتا ہے جو تم سے کہتا ہے کہ وہی اللہ تمہاری بندگی و پرستش کا مستحق ہے ؟ غصے کے لائق بات یہ ہے یا یہ کہ جو خالق نہیں ہیں ان کی بندگی کی جائے اور جو خالق ہے اس کی بندگی نہ کی جائے ؟ تم زبان سے یہ اقرار تو ضرور کرتے ہو کہ اللہ ہی تمہارا اور کائنات کا خالق ہے، لیکن اگر تمہیں واقعی اس بات کا یقین ہوتا تو اس کی بندگی کی طرف بلانے والے کے پیچھے اس طرح ہاتھ دھو کر نہ پڑجاتے۔ یہ ایسا زبردست چبھتا ہوا سوال تھا کہ اس نے مشرکین کے عقیدے کی چولیں ہلا دیں۔ بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ جبیر بن مطعم جنگ بدر کے بعد قریش کے قیدیوں کی رہائی پر بات چیت کرنے کے لیے کفار مکہ کی طرف سے مدینہ آئے۔ یہاں رسول اللہ ﷺ مغرب کی نماز پڑھا رہے تھے اور اس میں سورة طور زیر تلاوت تھی۔ ان کا اپنا بیان یہ ہے کہ جب حضور اس مقام پر پہنچے تو میرا دل سینے سے اڑا جاتا تھا۔ بعد میں ان کے مسلمان ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس روز یہ آیات سن کر اسلام ان کے دل میں جڑ پکڑ چکا تھا۔
Top