Tafheem-ul-Quran - An-Najm : 10
فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰىؕ
فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ : تو اس نے وحی کی اس کے بندے کی طرف مَآ اَوْحٰى : جو اس نے وحی کی۔ وحی پہنچائی
تب اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو وحی بھی اسے پہنچانی تھی۔ 9
سورة النَّجْم 9 اصل الفاظ ہیں فَاَوْحٰٓی الیٰ عَبْدِہ مَا اَوْحیٰ۔ اس فقرے کے دو ترجمے ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ " اس نے وحی کی اس کے بندے پر جو کچھ بھی وحی کی "۔ اور دوسرا یہ کہ " اس نے وحی کی اپنے بندے پر جو کچھ بھی وحی کی "۔ پہلا ترجمہ کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جبریل نے وحی کی اللہ کے بندے پر جو کچھ بھی اس کو وحی کرنی تھی۔ اور دوسرا ترجمہ کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ اللہ نے وحی کی جبریل کے واسطہ سے اپنے بندے پر جو کچھ بھی اس کو وحی کرنی تھی۔ مفسرین نے یہ دونوں معنی بیان کیے ہیں۔ مگر سیاق وسباق کے ساتھ زیادہ مناسبت پہلا مفہوم ہی رکھتا ہے اور وہی حضرت حسن بصری اور ابن زید سے منقول ہے۔ اس پر یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ عبدہ کی ضمیر اوحیٰ کے فاعل کی طرف پھرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف کیسے پھر سکتی ہے جبکہ آغاز سورة سے یہاں تک اللہ کا نام سرے سے آیا ہی نہیں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں ضمیر کا مرجع کسی خاص شخص کی طرف سیاق کلام سے صاف ظاہر ہو رہا ہو وہاں ضمیر آپ سے آپ اسی کی طرف پھرتی ہے خواہ اس کا ذکر پہلے نہ آیا ہو۔ اس کی متعدد نظیریں خود قرآن مجید میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ۔ " ہم نے اس کو شب قدر میں نازل کیا ہے "۔ یہاں قرآن کا سرے سے کہیں ذکر نہیں آیا ہے۔ مگر سیاق کلام خود بتارہا ہے کہ ضمیر کا مرجع قرآن ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوا ہے وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللہ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوْا مَا تَرَکَ عَلیٰ ظَھْرِھَا مِنْ دَآبَّۃٍ۔ " اگر اللہ لوگوں کو ان کے کرتوتوں پر پکڑنے لگے تو اس کی پیٹھ پر کسی جاندار کو نہ چھوڑے "۔ یہاں آ گے پیچھے زمین کا ذکر کہیں نہیں آیا ہے۔ مگر سیاق کلام سے خود ظاہر ہوتا ہے کہ " اس کی پیٹھ " سے مراد زمین کی پیٹھ ہے۔ سورة یٰس میں فرمایا گیا ہے وَمَآ عَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہٗ۔ " ہم نے اسے شعر کی تعلیم نہیں دی ہے اور نہ شاعری اس کو زیب دیتی ہے۔ "۔ یہاں پہلے یا بعد رسول اللہ ﷺ کا کوئی ذکر نہیں آیا ہے مگر سیاق کلام بتارہا ہے کہ ضمیروں کے مرجع آپ ہی ہیں۔ سورة رحمٰن میں فرمایا کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ ، " وہ سب کچھ جو اس پر ہے فانی ہے "۔ آ گے پیچھے کوئی ذکر زمین کا نہیں ہے۔ مگر عبارت کا انداز ظاہر کر رہا ہے کہ علیہا کی ضمیر اسی کی طرف پھرتی ہے۔ سورة واقعہ میں ارشاد ہوا اِنَّآ اَنْشَأْنَاھُنَّ اِنْشَآءً ، " ہم نے ان کو خاص طور پر پیدا کیا ہوگا "۔ آس پاس کوئی چیز نہیں جس کی طرف ھُنَّ کی ضمیر پھرتی نظر آتی ہو۔ یہ فحوائے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ مراد خواتین جنت ہیں۔ پس چونکہ اَوْحیٰ الیٰ عَبْدِہ کا یہ مطلب بہرحال نہیں ہوسکتا کہ جبریل نے اپنے بندے پر وحی کی، اس لیے لازماً اس کے معنی یہی لیے جائیں گے کہ جبریل نے اللہ کے بندے پر وحی کی، یا پھر یہ کہ اللہ نے جبریل کے واسطہ سے اپنے بندے پر وحی کی۔
Top