Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 61
قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ اَمْ اَنْتَ مِنَ اللّٰعِبِیْنَ
قَالُوْٓا : وہ بولے اَجِئْتَنَا : کیا تم لائے ہو ہمارے پاس بِالْحَقِّ : حق کو اَمْ : یا اَنْتَ : تم مِنَ : سے اللّٰعِبِيْنَ : کھیلنے والے (دل لگی کرنیوالے)
اور یاد کرو ! جب تم نے کہا کہ اے موسیٰ ! ہم ایک ہی قسم کے کھانے پر ہرگز صبر نہیں کرسکتے اپنے رب سے ہمارے لیے دعا کرو کہ وہ ہمارے لیے ان نعمتوں میں سے نکالے جو زمین اگاتی ہے، یعنی اس کی سبزیاں، ککڑیاں، لہسن، مسور اور پیاز، کہا گیا بہتر چیز کی بجائے تم ادنیٰ درجے کی چیزیں لینا چاہتے ہو۔ کسی شہر میں جابسو، تو وہ چیز تمہیں مل جائے گی جو تم نے طلب کی ہے، اور ذلت اور پست ہمتی ان پر مسلط کردی گئی۔ وہ اللہ کا غضب لے کرلوٹے، یہ اس سبب سے کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے۔ یہ نتیجہ تھا ان کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ وہ حدود شرع سے نکل نکل جاتے تھے )
وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ مِنْ بَقْلِھَا وَقِثَّآئِھَا وَفُوْمِھَا وَعَدَسِھَا وَبَصَلِھَاط قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ھُوَاَدْنٰی بِالَّذِیْ ھُوَ خَیْرٌط اِھْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَکُمْ مَّاسَاَلْتُمْط وَضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ وَبَآئُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِطذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَیَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْاوَّکَانُوْایَعْتَدُوْنَ ۔ (البقرۃ : 61) (اور یاد کرو ! جب تم نے کہا کہ اے موسیٰ ! ہم ایک ہی قسم کے کھانے پر ہرگز صبر نہیں کرسکتے اپنے رب سے ہمارے لیے دعا کرو کہ وہ ہمارے لیے ان نعمتوں میں سے نکالے جو زمین اگاتی ہے۔ یعنی اس کی سبزیاں، ککڑیاں، لہسن، مسور اور پیاز۔ کہا کیا بہتر چیز کی بجائے تم ادنیٰ درجے کی چیزیں لینا چاہتے ہو۔ کسی شہر میں جابسو، تو وہ چیز تمہیں مل جائے گی جو تم نے طلب کی ہے۔ اور ذلت اور پست ہمتی ان پر مسلط کردی گئی۔ وہ اللہ کا غضب لے کرلوٹے، یہ اس سبب سے کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے۔ یہ نتیجہ تھا ان کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ حدود شرع سے نکل نکل جاتے تھے) چند مشکل الفاظ کی تشریح آیت کی تشریح سے پہلے چند الفاظ کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ آیت میں ” بقل “ کا لفظ آیا ہے۔ یہ کسی خاص سبزی کا نام نہیں بلکہ اس لفظ کا اطلاق تمام سبزیوں اور ترکاریوں کی تمام اقسام پر ہوتا ہے۔ اسی طرح اس میں لفظ استعمال ہوا ہے ” فوم “۔ اس کا معنی لہسن بھی کیا جاتا ہے اور گندم بھی۔ اس لیے مختلف اہل علم نے ان میں سے کوئی ایک معنی مراد لیا ہے۔ اس آیت میں ایک لفظ آیا ہے ” مصرا “۔ اس سے مراد ملک مصر نہیں بلکہ کوئی عام شہر مراد ہے۔ کیونکہ مصر ” شہر “ کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے۔ جہاں بھی قرآن پاک میں یہ لفظ ملک مصر کے لیے استعمال ہوا ہے غیر منصرف استعمال ہوا ہے جس پر تنوین نہیں آیا کرتی اور یہاں یہ منصرف صورت میں آیا ہے اس لیے اس سے کوئی سا بھی شہر مراد ہوسکتا ہے۔ اسی طرح اس آیت کریمہ میں ادنیٰ کا لفظ آیا ہے۔ یہ دناءت سے ہے۔ جس کا معنی ہوتا ہے ” گھٹیا “ جو خیرکا متضاد ہے۔ ادنیٰ اور خیر سے کیا مراد ہے اور تقابل کن دو چیزوں میں ہے اس آیت کریمہ کو گہرے غور وفکر سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آیت کے الفاظ سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل من وسلویٰ کی صورت میں ایک ہی طرح کی غذا کھاتے کھاتے تنگ آگئے تھے اور انھوں نے ان متنوع غذائوں کا مطالبہ کیا جنھیں کھانے کے وہ عادی تھے۔ اس پر پروردگار نے انھیں ڈانٹتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں من وسلویٰ کی صورت میں اعلیٰ ترین غذا سے نوازا جارہا ہے جو دنیا میں کسی اور کو میسر نہیں۔ لیکن تم ایسے نالائق ہو کہ تم اعلیٰ غذا کو چھوڑ کر غلے اور ترکاریوں سے متعلق غذائوں کی خواہش کررہے ہو۔ کہاں من وسلویٰ اور کہاں یہ زمین سے اگنے والی معمولی غذائیں۔ حالانکہ اگر یہی بات ہوتی تو کوئی منصف مزاج شخص بھی اس مطالبے کو ناروا کہنے کی جسارت نہیں کرسکتا۔ کیونکہ بہتر سے بہتر غذا بھی آدمی ہمیشہ نہیں کھا سکتا۔ چند ہی دنوں کے بعد ایک طرح کی غذا سے طبیعت اکتاجاتی ہے۔ ہم لوگ عید قربان کے موقع پر گوشت جیسی اعلیٰ غذا سے نوازے جاتے ہیں۔ لیکن عید کے تین دن گزارنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ لوگ ان تین ہی دنوں میں گوشت سے تنگ آجاتے ہیں اور دوسری چیزیں ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ انسان کی فطرت اور طبیعت کا یہ انداز بھی اللہ ہی کی تخلیق ہے۔ اس لیے اس طرح کی خواہش پر انسان انسانوں کو ملامت نہیں کرتے چہ جائیکہ انسانوں کا خالق کسی فطری مطالبے پر نہ صرف ملامت کرے بلکہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے اسے درس عبرت بنادے۔ حقیقت یقینا اس سے مختلف ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جس سے انسانی جسم کی بقا کا تعلق ہے اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا تعلق انسان کی روح، انسان کے اخلاق اور اگر وہ انسانوں کا گروہ اللہ کی جانب سے حامل دعوت امت بنادیا گیا ہے تو اس کی بقا، عزت وسربلندی اور اولوالعزمی کا تعلق ہے پہلے طرح کی چیزوں کو انسانی ضروریات کہتے ہیں اور دوسری طرح کی چیزوں کو انسانی مقاصد۔ اگر تو مقاصد کے ساتھ ساتھ انسانی ضرورتیں میسر رہیں تو دونوں کا ساتھ لے کر چلنا انسان کے لیے ضروری ہے۔ لیکن اگر ایسا ہوجائے کہ انسانی ضرورت تکلف کے درجے میں پہنچ جائے اور یا بڑھتے بڑھتے تعیش میں داخل ہوجائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسانی مقاصد کو نقصان پہنچتا ہے اور پھر ایک ایسا وقت آتا ہے جب انسانی ضرورتیں مقاصد کی جگہ لے لیتی ہیں۔ پھر ارادے دم توڑنے لگتے ہیں، ولولوں کی موت واقع ہوجاتی ہے، خطرات سے کھیلنا ایک ڈرائونا خواب بن جاتا ہے، زندگی انسانوں کو گزارنے لگتی ہے۔ انسان زندگی کی کشمکش سے عاری ہوجاتے ہیں۔ ٹھیک یہی وقت ہوتا ہے جب دوسری قومیں ایسی قوم پر چڑھ دوڑتی ہیں اور اسے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیتی ہیں۔ یہ قوم بلند ہمتی، بلند عزمی اور اجتماعی زندگی سے تو پہلے ہی محروم ہوچکی ہوتی ہے اب اس کے سامنے اس کے سوا کوئی ہدف نہیں ہوتا کہ وہ باربرداری کے جانوروں کی طرح فاتح قوم کی ذلیل سے ذلیل خدمات کے لیے اپنی گردنیں جھکادے اور اپنی بقا کے لیے فاتح قوم کے ہاتھوں غذا کے جو نوالے ملتے رہیں اسی پر اکتفا کرکے بیٹھ جائے۔ چناچہ یہ چند نوالے ہی اس کے لیے زندگی کا محبوب مقصد بن جاتے ہیں۔ زمین سے اگنے والی ترکاریاں اور زمین سے اگنے والا غلہ ان خاک بازوں کا مطمح نظربن جاتا ہے۔ بنی اسرائیل فرعونیوں کی غلامی کا شکار ہو کر ایسی ہی پست ہمت قوم بن چکی تھی، جس کے سامنے کوئی بڑا مقصد نہ تھا۔ زمین پر خدمت بجا لانے والے جانوروں کی طرح انھیں صرف پیٹ بھر کر چارہ ملنا چاہیے۔ اس کے لیے انھیں کیسی ہی ذلت برداشت کرنا پڑے وہ اس کے لیے تیار تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے اندر جب زندگی کا صور پھونکنا چاہا تو آپ نے محسوس کیا کہ غلامی نے ان کے اندر وہ چیز نہیں رہنے دی جو زندگی کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے۔ چناچہ انھوں نے سب سے پہلے انھیں غلامی سے نجات دلائی اور صحرائے سینا کی آزاد فضا میں انھیں آزادی کا درس دینا شروع کیا۔ یہاں وہ حقیقی کشمکش شروع ہوئی جس کی طرف اس آیت کریمہ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) انھیں ایک ایسی زندہ قوم میں تبدیل کرنا چاہتے تھے، جن کے لیے زندگی کی سختیاں زندگی کے لیے سامانِ سفر کی حیثیت رکھتی ہوں، جو کم سے کم کھانے پینے کو اپنے لیے کافی سمجھتی ہو۔ ان کو حقیقی لذت مہمات کے سرانجام دینے میں ملتی ہو وہ اللہ کی رضا کے لیے بڑے سے بڑے خطرے سے کھیلنا بھی اپنے لیے محبوب مشغلہ سمجھتی ہو۔ وہ جانتی ہو کہ مجھے اللہ نے کھانے پینے کے لیے نہیں بلکہ اپنی بندگی اور اس زمین کو اس کی نافرمانی سے پاک کرنے کے لیے اٹھایا ہے۔ اس لیے مجھے اس حقیقی مقصد کو لے کر آگے بڑھنا ہے میری حقیقی لذت پلٹنے جھپٹنے میں ہے۔ پر عیش زندگی میں نہیں۔ میں نے ایک شاہین کی طرح اس خاکدان سے کنارہ کرلیا ہے جہاں رزق صرف آب ودانہ کا نام ہے۔ میرے سامنے وسیع اہداف ہیں، وسیع منزلیں ہیں، میری ہر منزل آبلہ پائی کا تقاضا کرتی ہے۔ مجھے ایک سپاہی کی طرح اپنی ہمت کے گھوڑے پر بھروسہ ہونا چاہیے۔ میرا کم سے کم سامانِ رسد میری کامیابی کی ضمانت ہے۔ میری امیدیں قلیل اور میرے مقاصد جلیل ہیں۔ مجھے ہر وقت مقاصد کی فکر کے لیے فکر مند اور مقاصد کے حصول کے لیے سرگرم رہنا ہے۔ ایسے گروہ، ایسی قوم اور ایسی امت کے لیے ظاہر ہے کھیتی باڑی، کاروبار، اور زندگی کے ایسے ہی دیگر مشاغل کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اس لیے جب بنی اسرائیل نے زمین سے اگنے والی نعمتوں کا تقاضا کیا تو یہ تقاضا بجائے خود مکروہ نہیں تھا، لیکن اس میں اصل کراہت اور ہلاکت کی بات یہ تھی کہ یہ اصل میں شاہینوں کو بلند پروازی سے ہٹاکر خاک بازی پہ ڈالنے والی بات تھی اور یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ تم آزادی کی جس نعمت سے ہمیں بہرہ ور کرنا چاہتے ہو اور تم نے ہماری زندگی کے لیے جو نیا اسلوب تجویز کیا ہے ہمیں وہ ہرگز منظور نہیں۔ ہم ایسی روکھی پھیکی غذا جو آسانی کے ساتھ ہمیں مل رہی ہے پر قانع نہیں رہ سکتے۔ ہمیں تو پر تعیش زندگی چاہیے چاہے اس کے لیے غلامی کی ذلت ہی کیوں نہ قبول کرنی پڑے۔ یہاں انہی دونوں باتوں میں تقابل کیا جارہا ہے کہ مسلسل غلامی نے تمہیں قوت امتیاز سے بھی محروم کردیا ہے تم صرف کھانے پینے کی چیزوں کو تو جانتے ہو لیکن تمہیں یہ معلوم نہیں کہ آزادی اور غلامی میں کیا فرق ہے ؟ تم چٹخاروں کے ایسے رسیا ہوگئے ہو کہ تم فرعون کی غلامی میں رہ کر پیٹ بھر کر کھانے کو پسند کرتے ہو۔ لیکن اگر تمہیں یہ چیزیں میسر نہ آئیں تو تمہارے نزدیک اس آزادی کی بھی کوئی قدروقیمت نہیں جس میں اللہ کے سوا کسی کی کوئی حکومت نہیں۔ حالانکہ ہاتف غیبی یہ پکارتا سنائی دیتا ہے ؎ سنو اے ساکنانِ ارضِ ہستی، ندا یہ آرہی ہے آسمان سے کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہتر غلامی کی حیات جاوداں سے یہ حادثہ صرف بنی اسرئیل کا نہیں تاریخ عالم ایسے حوادث سے بھرپور ہے۔ جب بھی قومیں دل کی بجائے پیٹ کی بات سننے لگتی ہیں اور مقاصد سے تہی دامن ہو کر ضروریاتِ زندگی کو مقاصد بنالیتی ہیں تو پھر ان کی تہذیب اور ان کا تمدن ان کی معنوی، روحانی اور فتوحاتی زندگی کا آئینہ دار نہیں ہوتے بلکہ مطعومات ومشروبات اور ملبوسات میں حد سے بڑھے ہوئے تنوع اور زندگی کے طور اطوار میں تکلفات اور تعیشات کے عکاس ہوتے ہیں۔ بےضرورت بڑی سے بڑی عمارتوں کا اٹھانا، انسانوں کو طبقات میں تقسیم کرنا، اور ایک اعلیٰ کلاس کو ملاء اعلیٰ کی مخلوق بنادینا، وسائل زندگی کی فکر میں ڈوبے رہنا اور خود زندگی کی اعلیٰ صفات کو نظر انداز کردینا ان کا معمول بن جاتا ہے۔ ایسی قوم دھرتی کا بوجھ بن جاتی ہے۔ بظاہر ان کے چہرے روشن ہوتے ہیں لیکن دل اجاڑ ہوتے ہیں۔ ان کی عیش گاہیں، ان کے کلب، ان کے ہوٹل آباد ہوتے ہیں، لیکن ان کے گھر ویران ہوتے ہیں۔ یہ زمین پر رینگنے والے حشرات الارض کی طرح بےبسی، بےہمتی اور ناتوانی کی منہ بولتی تصویر ہوتے ہیں۔ جن میں زندگی کی کوئی امنگ نہیں ہوتی۔ الفاظ کے طوطے مینااڑاتے اور زندگی کی حقیقتوں سے جی چرانے والے لوگ ہوتے ہیں۔ ایسی انسانی بھیڑ پر جب بھی کوئی طاقتور حملہ کرتا ہے تو انھیں اپنا غلام بنالیتا ہے۔ کوئی سراج الدولہ اور کوئی ٹیپو اور کوئی سید احمد اور شاہ اسماعیل اور کوئی سنوسی جان دے کر بھی انھیں زندگی کا درس دینے سے عاری رہتا ہے اور ان جیسے لوگوں کی قربانیوں کے اثرات سے اگر سیاسی آزادی مل بھی جاتی ہے تو تہذیبی، تمدنی، معاشی اور علمی آزادی نصیب نہیں ہوتی۔ اِہبطوا مصراً کا مفہوم بنی اسرائیل جب غلامی کے اثرات سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر پیغمبر کی کاوشوں سے بھی نکل نہ پائے تو اللہ نے حکم دیا کہ اگر وہ عظیم مقصد تمہیں عزیز نہیں جس کے لیے یہ صحرا نوردی کرائی جارہی ہے۔ بلکہ اس کے مقابلے میں تم اپنے کام ودہن کی لذت کو چھوڑنے کے لیے بھی تیار نہیں ہو تو پھر یہ چیزیں تمہیں کسی شہر میں مل سکتی ہیں تمہارے سامنے صحرائے سینا کی بستیاں یا ارض فلسطین ہے اس کے کسی شہر کو فتح کرلو تو جو کچھ تم چاہتے ہو وہ تمہیں مل جائے گا۔ لیکن یاد رکھو ! تمہیں اس کے لیے اپنے بلند منصب سے نیچے اترنا ہوگا۔ کیونکہ کھیتی باڑی کرنا حامل دعوت امتوں کا کام نہیں ہوتا۔ یہ کام دوسری قومیں انجام دیتی ہیں۔ اس لیے جب مدینہ طیبہ میں مسلمانوں نے اپنی کھیتی باڑی اور کاروبار کی دیکھ بھال کی اجازت مانگی تھی تو پروردگار نے فرمایا تھا : وَلَا تُلْقُوْابِاَیدِیْکُمْ اِلَی التَّہلُکَۃِ ” اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں مت ڈالو “۔ یعنی تم دنیا کی قسمتیں بنانے اٹھے ہو۔ تمہاری قوت دعوت و جہاد میں ہے، ان کاموں میں نہیں۔ بنی اسرائیل سے بھی یہی فرمایا جارہا ہے، ہبوط ” مہمان کے اترنے “ کو کہتے ہیں۔ لیکن اس کا اصل معنی بلندی سے پستی کی طرف اترنا یا گرنا بھی ہے۔ اس سے اشارہ اسی گراوٹ کی طرف ہے۔ یہاں مصر سے مراد ملک مصر نہیں بلکہ کوئی سا بھی شہر ہے۔ لیکن مصر کا لفظ لاکر اشارہ فرمایا گیا ہے کہ جب تم اصل مقصد بھول کر لذت کام ودہن میں لگ جاؤ گے، تو پھر یاد رکھو کہ تم پھر کسی نہ کسی مصر کی غلامی کے شکنجے میں جاپھنسو گے کیونکہ شکم پروری غلامی کا ہمیشہ پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں قومی افتخار اجتماعی قوت اور مقصدی یگانگت قصہ پارینہ بن جاتی ہیں۔ پوری قوم افراد کا ایک بےہنگم گروہ ایک منتشر بھیڑ اور جانوروں کا ایک ایسا ریوڑ بن جاتی ہے، جس پر ذلت ومسکنت اور بےبسی اور ناتوانی کی مہر لگ جاتی ہے۔ یہ زندہ رہتی ہے مگر عبرت کی تصویر بن کر۔ بنی اسرائیل عبرت کے لیے زندہ ہے چناچہ بنی اسرائیل تاریخ کے مختلف ادوار میں اسی حوالے سے پہچانے جاتے ہیں اور قرآن کریم یہاں بتارہا ہے کہ ان کی سرکشی اور بد عملی کے باعث اللہ نے ان پر جو عذاب مسلط کیا ہے وہ اسی ذلت ومسکنت کا عذاب تھا۔ انھیں قدرت نے باربار سنبھلنے کا موقع دیا لیکن جیسے جیسے ان کی سرکشی بڑھتی گئی ویسے ویسے عذاب کا شکنجہ کسا جاتا رہا۔ عجیب بات یہ ہے کہ قومیں بنتی، اٹھتی، زوال پذیر ہوتیں اور فنا کے گھاٹ اترجاتی ہیں اور پھر ان کے صرف تذکرے باقی رہ جاتے ہیں۔ لیکن اس قوم کو اللہ نے نشان عبرت کے طور پر آج تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ انھیں آخری سنبھلنے کا موقعہ آنحضرت ﷺ کی بعثت مبارکہ کی صورت میں میسر آیا لیکن جب انھوں نے اس سے بھی فائدہ اٹھانے سے انکار کردیا تو یہ عذاب ان کے لیے تقدیر مبرم بن گیا۔ تاریخ کا ہر دور اس کی تصدیق کرتارہایہ یروشلم اور فلسطین سے تو بہت عرصہ پہلے نکالے جاچکے تھے۔ لیکن پھر نجران، مدینہ اور خیبر بھی ان کی پناہ گاہ نہ بن سکا۔ وہاں سے نکالے گئے تو یورپ کے مختلف علاقوں میں بکھر گئے۔ لیکن چونکہ یہ اپنی قومی خباثتوں سے باز نہیں آتے اور یہ شائد اللہ ہی کے عذاب کا اثر ہے اس لیے وقتاً فوقتاً جو قوم بھی ان کو پناہ دیتی رہی، اسی کے ہاتھوں یہ عذاب کا شکار بھی ہوتے رہے۔ نازی جرمنی میں ان کا قتل عام کیا گیا، اٹلی، ہنگری اور رومانیہ وغیرہ میں بھی ادھیڑے کھدیڑے گئے۔ آج اگرچہ اسرائیلی ریاست کے نام سے یہ ایک مملکت کے مالک ہیں لیکن یہ بات کسی تعجب کا باعث نہیں ہونی چاہیے کیونکہ قرآن کریم نے سورة آل عمران چوتھے پارے میں واضح طور پر یہ ارشاد فرمایا تھا : ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ اَیْنَمَا ثُقِفُوْااِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ (ان پر ذلت تھوپ دی گئی ہے وہ جہاں بھی پائے جائیں۔ سوائے اس کے کہ وہ اللہ کی رسی کو پکڑ لیں یا لوگوں کی پناہ میں آجائیں) یعنی یہ عذاب ہر جگہ ان کا پیچھا کرے گا۔ یہ ذلت کی تصویر بنے رہیں گے۔ اس سے نکلنے کی صرف دو صورتیں ہیں، ایک مستقل ہے ایک عارضی ہے۔ مستقل صورت یہ ہے کہ وہ اللہ کی رسی کو تھام لیں۔ یعنی اسلام قبول کرلیں۔ اس کے بعد ان کی تاریخ مسلمانوں کی تاریخ ہوگی یہود کی نہیں اور دوسری عارضی صورت یہ ہے کہ وہ کسی بڑی مملکت اور حکومت کی پناہ میں آجائیں۔ آج کی اسرائیلی ریاست ہر اہل نظر جانتا ہے کہ امریکہ کی چھائونی ہے۔ یوں تو پوری دنیائے کفر اسے دودھ پلا کر پال رہی ہے لیکن امریکہ بطور ِخاص اس کے لیے پناہ مہیا کرتا ہے۔ اسے توانائی فراہم کرنے کے لیے عراق کو تباہ کیا گیا اور مصر کے ساتھ جنگ رمضان میں پوری طرح اسے تحفظ دیا گیا۔ بالآخرصدر سادات کو کہنا پڑا کہ میں اسرائیل سے تو لڑ سکتا ہوں امریکہ سے نہیں لڑسکتا۔ پوری دنیا اگر اس کے نسلی تعصبات اور ظالمانہ اقدامات کے خلاف کوئی قراردادِ مذمت پاس کرتی ہے تو امریکہ اسے ویٹو کردیتا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسرائیلی ریاست اصل میں امریکی ریاست ہے۔ لیکن وہ وقت دور نہیں جب تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی اور آج اس ریاست کو پناہ دینے والے اس کے خاتمے کا باعث بنیں گے کیونکہ یہود اپنی عقربی خصلت کے ہاتھوں مجبور ہیں کہ وہ اپنے محسنوں کو بھی نیش زنی سے باز نہیں کرسکتے اور جہاں تک ان کی مسکنت کا تعلق ہے یعنی ان کی غربت اور مفلسی کا، تو اس پر بھی تعجب نہیں ہونا چاہیے اگرچہ دنیا میں یہود کا مالدار ہونا ایک ضرب المثل بن گیا ہے لیکن حقیقت میں یہ محض دھوکہ اور مغالطہ ہے۔ دولت و ثروت جتنی بھی ہے، وہ قوم یہود کے صرف اکابر و مشاہیر تک محدود ہے ورنہ عوام یہود کا شمار دنیا کی مفلس ترین قوموں میں ہوتا ہے۔ جیوش انسائیکلوپیڈیاجلد 10 صفحہ نمبر 151 میں ہے (گو یہود کا تمول ضرب المثل کی حد تک شہرت پاچکا ہے۔ لیکن اہل تحقیق کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہود یورپ کے جس جس ملک میں آباد ہیں وہاں کی آبادی میں انھیں کے مفلسوں کا تناسب سب سے بڑھا ہوا ہے۔ ) اسی کتاب کے صفحہ 161 میں ہے (عوام یہود دوسری قوموں سے کہیں زیادہ غریب ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے چند افراد بہت زیادہ دولت مند ہیں۔ ) بنی اسرائیل کے مبتلائے عذاب ہونے کی وجوہ آیتِ کریمہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے جو ان کو سزائیں دیں اور ان پر جو عذاب مسلط کیے اس کی دو وجہ بیان فرمائی ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے۔ اس انکار کی تین صورتیں تھیں۔ کبھی تو وہ اللہ کے احکام کو صاف صاف ماننے سے انکار کردیتے تھے، کبھی احکام کو ماننے کے باوجود اس پر عمل کرنے سے انکار کردیتے تھے اور تیسری صورت یہ تھی کہ اللہ کے احکام کی ایسی تاویلیں کرتے تھے جو احکام کی صورت اور حقیقت دونوں کو بدل کر رکھ دیتی تھیں۔ درحقیقت وہ صرف اپنی خواہش کے پرستار تھے۔ بظاہر وہ اپنے آپ کو مومن اور مسلم کہتے تھے لیکن عمل کے اعتبار سے اللہ کے دین سے ان کا کوئی رشتہ باقی نہیں رہ گیا تھا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ان کی یہ سرکشی اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ وہ اللہ کے نبیوں کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ جسارت کی انتہا یہ تھی کہ وہ اپنے ان اعمالِ شنیعہ کے لیے کسی تاویل کا سہارا بھی نہیں لیتے تھے بلکہ وہ اپنے ان ظالمانہ کرتوتوں پر فخر کا اظہار کرتے تھے۔ بغیر الحق کا مفہوم قرآن کریم نے بغیرالحق کہہ کر شاید اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جدید تحقیق سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ خود ان قاتلوں کے معیار سے بھی یہ قتل ناحق و ناجائز تھے۔ یعنی خلاف عدل تو تھے ہی قانونِ وقت کے لحاظ سے خلاف قانون اور بےضابطہ بھی تھے۔ سلسلہ اسرائیلی کے آخری نبی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تھے۔ ان پر جس طرح الزامات لگائے گئے اور جس طرح ان کے مقدمے کا فیصلہ ہوا اور جس طرح صلیب تک پہنچانے کی کوشش کی گئی حال ہی میں اٹلی کے ایک ایڈوکیٹ روزیڈی (Rosedi) اور انگلستان کے ایک بیرسٹر Dnnes) نے قدیم کاغذات کی چھان بین کرکے آپ کے مقدمہ کی رودادیں الگ الگ شائع کی ہیں ان کے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے مقدمہ میں یہ نہیں ہوا کہ رومی حاکم عدالت سے سزائے صلیب کا فیصلہ سنانے میں کوئی اجتہادی غلطی ہوگئی ہو بلکہ ہوا یہ کہ یہود نے ایک بالکل جھوٹا استغاثہ گھڑا اور پہلے اپنی مذہبی عدالت میں اور پھر ملک کی عام فوجداری عدالت میں بالکل ہی بےضابطہ کارروائیاں کرکے حکم سزا دلوانے میں کامیاب ہوگئے۔ رومی اور جیسے بھی کچھ ہوں آئین دوستی اور قانون پرستی تو ان کی مشہور رہی ہے۔ جب ان تک کے عہد میں یہ اندھیر ہوا تو پھر قدیم ترین انبیاء کی مظلومیت کا کیا ٹھکانہ جن کے قتل میں غالباً ضابطہ کی ظاہری اور رسمی صورت بھی نہیں برتی گئی۔ بغیر الحق سے اس صورت حال کی طرف بھی اشارہ معلوم ہوتا ہے۔ ہم تفہیم القرآن سے مثال کے طور پر بائبل کے چندواقعات کو نقل کرتے ہیں، جس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ قرآن کریم نے قتل انبیاء کا جو ان پر الزام لگایا ہے، وہ خود اس کے معترف تھے۔ 1 حضرت سلیمان کے بعد جب بنی اسرائیل کی سلطنت تقسیم ہو کر دوریاستوں (یروشلم کی دولت یہودیہ اور سامریہ کی دولت اسرائیل) میں بٹ گئی تو ان میں باہم لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوا اور نوبت یہاں تک آئی کہ یہود کی ریاست نے اپنے ہی بھائیوں کے خلاف دمشق کی آرامی سلطنت سے مدد مانگی۔ اس پر خدا کے حکم سے حنانی نبی نے یہودیہ کے فرمانروا آساکو کو سخت تنبیہ کی۔ مگر آسا نے اس تنبیہ کو قبول کرنے کی بجائے خدا کے پیغمبر کو جیل بھیج دیا۔ (تواریخ، باب 17، آیت 7۔ 10) 2 حضرت الیاس (ایلیاء Elliah) (علیہ السلام) نے جب بعل کی پرستش پر یہودیوں کو ملامت کی اور ازسر نو توحید کی دعوت کا صور پھونکنا شروع کیا تو سامریہ کا اسرائیلی بادشاہ اخی اب اپنی مشرک بیوی کی خاطر ہاتھ دھوکر ان کی جان کے پیچھے پڑگیا، حتی کی انھیں جزیرہ نمائے سینا کے پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی۔ اس موقع پر جو دعا حضرت الیاس نے مانگی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں : ” بنی اسرائیل نے تیرے عہد کو ترک کیا ............ تیرے نبیوں کو تلوار سے قتل کیا اور ایک میں ہی اکیلا بچا ہوں، سو وہ میری جان لینے کے درپے ہیں۔ “ (1۔ سلاطین، باب 19، آیت 1۔ 10) 3 ایک اور نبی حضرت میکایاہ کو اسی اخیاب نے حق گوئی کے جرم میں جیل بھیجا اور حکم دیا کہ اس شخص کو مصیبت کی روٹی کھلانا اور مصیبت کا پانی پلانا۔ (1۔ سلاطین، باب 22، آیت 26۔ 27) 4 پھر جب یہود یہ کی ریاست میں علانیہ بت پرستی اور بدکاری ہونے لگی اور زکریاء نبی نے اس کے خلاف آواز بلند کی تو شاہ یہوداہ یوآس کے حکم سے انھیں عین ہیکل سلیمانی میں مقدس اور قربان گاہ کے درمیان سنگسار کردیا گیا۔ (2۔ تواریخ، باب 24، آیت 21) 5 اس کے بعد جب سامریہ کی اسرائیلی ریاست اشوریوں کے ہاتھوں ختم ہوچکی اور یروشلم کی یہودی ریاست کے سر پر تباہی کا طوفان تلا کھڑا تھا تو یرمیاہ نبی اپنی قوم کے زوال پر ماتم کرنے اٹھے اور کو چے کو چے انھوں نے پکارنا شروع کیا کہ سنبھل جاؤ ورنہ تمہارا انجام سامریہ سے بھی بدتر ہوگا۔ مگر قوم کی طرف سے جو جواب ملا وہ یہ تھا کہ ہر طرف سے ان پر لعنت اور پھٹکار کی بارش ہوئی، پیٹے گئے، قید کیئے گئے، رسی سے باندھ کر کیچڑ بھرے حوض میں لٹکادئیے گئے تاکہ بھوک اور پیاس سے وہیں سوکھ سوکھ کر مرجائیں اور ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ قوم کے غدار ہیں، بیرونی دشمنوں سے ملے ہوئے ہیں۔ (یرمیاہ، باب 15، آیت 10، باب 18، آیت 20۔ 23، باب 20، آیت 1۔ 18 باب، 36 تا باب 40) 6 ایک اور نبی حضرت عاموس کے متعلق لکھا ہے کہ جب انھوں نے سامریہ کی اسرائیلی ریاست کو اس کی گمراہیوں اور بدکاریوں پر ٹوکا اور ان حرکات کے برے انجام سے خبردار کیا تو انھیں نوٹس دیا گیا کہ ملک سے نکل جاؤ اور باہر جاکر نبوت کرو۔ (عاموس، باب 7، آیت، 1۔ 13) 7 حضرت یحییٰ (یوحنا) (علیہ السلام) نے جب ان بداخلاقیوں کے خلاف آواز اٹھائی جو یہودیہ کے فرمانروا ہیرودیس کے دربار میں کھلم کھلا ہورہی تھیں، تو پہلے وہ قید کیے گئے پھر بادشاہ نے اپنی معشوقہ کی فرمائش پر قوم کے اس صالح ترین آدمی کا سرقلم کرکے ایک تھال میں رکھ کر اس کی نذر کردیا۔ (مرقس، باب 6، آیت، 17۔ 29) 8 آخر میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر بنی اسرائیل کے علماء اور سردار انِ قوم کا غصہ بھڑکا کیونکہ وہ انھیں ان کے گناہوں اور ان کی ریاکاریوں پر ٹوکتے تھے اور ایمان و راستی کی تلقین کرتے تھے۔ اس قصور پر ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ تیار کیا گیا، رومی عدالت سے ان کے قتل کا فیصلہ حاصل کیا گیا اور جب رومی حاکم پیلاطس نے یہود سے کہا کہ آج عید کے روز میں تمہاری خاطر یسوع اور برابا ڈاکودونوں میں سے کس کو رہا کروں، تو ان کے پورے مجمع نے بالاتفاق پکار کر کہا کہ برابّا کو چھوڑ دے اور یسوع کو پھانسی پر لٹکا۔ (متی، باب 27۔ آیت 20 تا 26) یہ ہے اس قوم کی کی داستانِ جرائم کا ایک نہایت شرمناک باب جس کی طرف قرآن کی اس آیت میں مختصراً اشارہ کیا گیا ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جس قوم نے اپنے فساق وفجار کو سرداری وسربراہ کاری کے لیے اور اپنے صلحا اور ابرار کو جیل اور دار کے لیے پسند کیا ہو، اللہ تعالیٰ اس کو اپنی لعنت کے لیے پسند نہ کرتا تو آخر اور کیا کرتا۔ (تفہیم القرآن جلد اول، ص : 81، 81، 82 حاشیہ نمبر 79) ممکن ہے آپ کو اس بات پر حیرت ہورہی ہو کہ بنی اسرائیل اپنے بگاڑ میں اس حد تک پہنچ گئے تھے کہ وہ اللہ کے نبیوں کو قتل کرنے کی جسارت کر گزرتے تھے۔ لیکن اے کاش ! ہم کبھی اپنی تاریخ کے آئینہ میں بھی جھانک کر دیکھیں بلکہ آج ہم جو کچھ کررہے ہیں اسے دیکھ کر اندازہ کریں کہ کیا ہمارے گریبان کی کوئی دھجی باقی رہ گئی ہے ؟ میں دور کی بات نہیں کرتا 1857 کے حالات ہماری قومی تاریخ کے ابواب ہیں۔ اس میں ہمارے امراء اور جاگیرداروں نے کیا رول ادا کیا ؟ اور پھر جن لوگوں نے ہمیں غلامی کی دلدل سے نکالنا چاہا اور انھوں نے استعمار سے پنجہ آزمائی کی ہم نے اس فیصلہ کی کشمکش میں کس کا ساتھ دیا ؟ سراج الدولہ کس کی غداری کا شکار ہوئے ؟ سلطان ٹیپوکن لوگوں کی سازشوں سے مارے گئے ؟ سید احمد شہید اور ان کے ساتھی کن لوگوں کی مخبری پر شہید کیے گئے ؟ اور سرحد میں خلافت کا نظام قائم ہوجانے کے بعد وہ کون لوگ تھے جنھوں نے ایک ہی رات میں ان مقدس لوگوں کو کہ گزشتہ پانچ سو سال کی تاریخ میں جن کی نظیر نہیں ملتی ایک ہی رات میں قتل کرڈالا ؟ آج پوری دنیائے اسلام میں حق و باطل کا ایک معرکہ برپا ہے۔ ایک طرف کروسیڈی امریکہ اور اس کے حمائتی ہیں اور دوسری طرف اسلام سے والہانہ محبت رکھنے والا طبقہ ہے۔ ذرا غور سے دیکھئے ! ان نیک نہاد اور سرفروش مخلص مسلمانوں کو کون پکڑ پکڑ کر کفر کی طاقتوں کے حوالے کررہا ہے ؟ خود عالم ِ اسلام کے اکثر ملکوں کی جیلیں کن لوگوں سے بھری جارہی ہیں ؟ کون لوگ ہیں جن کو دہشت گرد قرار دے کر نشان عبرت بنایا جارہا ہے ؟ اور کون لوگ ہیں جن پر اللہ کی زمین تنگ کردی گئی ہے ؟ اور جو لوگ یہ سب کچھ کررہے ہیں وہ کون لوگ ہیں ؟ اور کن لوگوں کے ساتھی ہیں ؟ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی کیا اس پر تعجب ہونا چاہیے کہ بنی اسرائیل اس حد تک کیوں پہنچ گئے تھے ؟ حقیقت یہ ہے کہ : ؎ نہ ستیزہ گاہ جہاں نئی نہ حریف پنجہ شکن نئے وہی قوت اسد اللّٰہی وہی مرحبی وہی عنتری اسی لیے اگلی آیت کریمہ میں تمام مذہبی گروہوں کا نام لے کر اصولی بات کہی گئی ہے۔ جو اللہ کے دین کا اصل تقاضا ہے اور جس پر دنیا اور آخرت کی کامیابی کا دارومدار ہے۔
Top