Tafheem-ul-Quran - An-Najm : 5
عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰىۙ
عَلَّمَهٗ : سکھایا اس کو شَدِيْدُ الْقُوٰى : زبردست قوت والے نے
اُسے زبر دست قوت والے نے تعلیم دی ہے 5
سورة النَّجْم 5 یعنی کوئی انسان اس کو سکھانے والا نہیں ہے، جیسا کہ تم گمان کرتے ہو، بلکہ یہ علم اس کو ایک فوق البشر ذریعہ سے حاصل ہو رہا ہے۔ " زبردست قوت والے " سے مراد بعض لوگوں کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، لیکن مفسرین کی عظیم اکثریت اس پر متفق ہے کہ اس سے مراد جبریل ؑ ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت عائشہ حضرت ابوہریرہ، قتادہ، مجاہد، اور ربیع بن انس سے یہی منقول ہے۔ ابن جریر، ابن کثیر، رازی اور آلوسی وغیرہ حضرات نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب اور مولانا اشرف علی صاحب نے بھی اپنے ترجموں میں اسی کی پیروی کی ہے۔ اور صحیح بات یہ ہے کہ خود قرآن مجید کی دوسری تصریحات سے بھی یہی ثابت ہے۔ سورة تکویر میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اِنَّہ لَقَولُ رَسُوْلٍ کَرِیمٍ ، ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ ، مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمیْنٍ ، وَمَا صَاحِبُکُمْ بِمَجْنُوْنٍ ، وَلَقَدْ رَاٰہُ بالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ (آیت 19۔ 23)۔ " در حقیقت یہ ایک بزرگ فرشتے کا بیان ہے جو زبردست قوت والا ہے، مالک عرش کے ہاں بڑا درجہ رکھتا ہے، اس کا حکم مانا جاتا ہے اور وہاں وہ معتبر ہے۔ تمہارا رفیق کچھ دیوانہ نہیں ہے، وہ اس فرشتے کو آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھ چکا ہے "۔ پھر سورة بقرہ کی آیت 97 میں اس فرشتے کا نام بھی بیان کردیا گیا ہے جس کے ذریعہ سے یہ تعلیم حضور کے قلب پر نازل کی گئی تھی قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنّہ نَزَّلَہ عَلیٰ قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللہِ۔ ان تمام آیات کو اگر سورة نجم کی اس آیت کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ یہاں زبردست قوت والے معلم سے مراد جبریل امین ہی ہیں نہ کہ اللہ تعالیٰ۔ اس مسئلے پر مفصل بحث آ گے آ رہی ہے۔ اس مقام پر بعض حضرات جبریل امین کو رسول اللہ ﷺ کا معلم کیسے قرار دیا جاسکتا ہے، اس کے معنی تو یہ ہوں گے کہ وہ استاد ہیں اور حضور شاگرد، اور اس سے حضور پر جبریل کی فضیلت لازم آئے گی لیکن یہ شبہ اس لیے غلط ہے کہ جبریل اپنے کسی ذاتی علم سے حضور کو تعلیم نہیں دیتے تھے جس سے آپ پر ان کی فضیلت لازم آئے، بلکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے آپ تک علم پہنچانے کا ذریعہ بنایا تھا اور وہ محض واسطہ تعلیم ہونے کی حیثیت سے مجازاً آپ کے معلم تھے۔ اس سے ان کی افضلیت کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے پانچ وقت نمازیں فرض ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو نماز کے صحیح اوقات بتانے کے لیے جبریل ؑ کو آپ کے پاس بھیجا اور انہوں نے دو روز تک پانچوں وقت کی نمازیں آپ کو پڑھائیں۔ یہ قصہ بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی اور مُؤطا وغیرہ کتب حدیث میں صحیح سندوں کے ساتھ بیان ہوا ہے اور اس میں رسول اللہ ﷺ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ آپ مقتدی تھے اور جبریل نے امام بن کر آپ کو نماز پڑھائی تھی۔ لیکن اس طرح محض تعلیم کی غرض سے ان کا امام بنایا جانا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ آپ سے افضل تھے۔
Top