Tafheem-ul-Quran - Al-Hadid : 12
یَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ یَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ بِاَیْمَانِهِمْ بُشْرٰىكُمُ الْیَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُۚ
يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِيْنَ : جس دن تم دیکھو گے مومن مردوں کو وَالْمُؤْمِنٰتِ : اور مومن عورتوں کو يَسْعٰى نُوْرُهُمْ : دوڑتا ہے نور ان کا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ : ان کے آگے وَبِاَيْمَانِهِمْ : اور ان کے دائیں ہاتھ بُشْرٰىكُمُ الْيَوْمَ : (کہا جائے گا) خوشخبری ہی ہے تم کو آج کے دن جَنّٰتٌ : باغات ہیں تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ : ان کے نیچے سے نہریں خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭ : ہمیشہ رہنے والے ہیں اس میں ذٰلِكَ : یہی هُوَ الْفَوْزُ : وہ کامیابی ہے الْعَظِيْمُ : بڑی
اُس دن جبکہ تم مومن مردوں اور عورتوں کو دیکھوگے کہ ان کا نور اُن کے آگے آگے  اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا۔ 17 (ان سے کہا جائے گاکہ) ”آج بشارت ہے تمہارے لیے“۔ جنتیں ہونگی جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہونگی، جن میں وہ ہمیشہ  رہیں گے یہی ہے بڑی کامیابی
سورة الْحَدِیْد 17 اس آیت اور بعد والی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ میدان حشر میں نور صرف مومنین صالحین کے لیے مخصوص ہوگا، رہے کفار و منافقین اور فساق و فجار، تو وہ وہاں بھی اسی طرح تاریکی میں بھٹک رہے ہوں گے جس طرح دنیا میں بھٹکتے رہے تھے۔ وہاں روشنی جو کچھ بھی ہوگی، صالح عقیدے اور صالح عمل کی ہوگی۔ ایمان کی صداقت اور سیرت و کردار کی پاکیزگی ہی نور میں تبدیل ہوجائے گی جس سے نیک بندوں کی شخصیت جگمگا اٹھے گی جس شخص کا عمل جتنا تابندہ ہوگا اس کے وجود کی روشنی اتنی ہی زیادہ تیز ہوگی اور جب وہ میدان حشر سے جنت کی طرف چلے گا تو اس کا نور اس کے آگے آگے دوڑ رہا ہوگا۔ اس کی بہترین تشریح قتادہ کی وہ مرسل روایت ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا " کسی کا نور اتنا تیز ہوگا کہ مدینہ سے عدن تک کی مسافت کے برابر فاصلے تک پہنچ رہا ہوگا، اور کسی کو نور مدینہ سے صنعاء تک، اور کسی کا اس سے کم، یہاں تک کہ کوئی مومن ایسا بھی ہوگا جس کا نور اس کے قدموں سے آگے نہ بڑھے گا " (ابن جریر)۔ بالفاظ دیگر جس کی ذات سے دنیا میں جتنی بھلائی پھیلی ہوگی اس کا نور اتنا ہی تیز ہوگا، اور جہاں جہاں تک دنیا میں اس کی بھلائی پہنچی ہوگی میدان حشر میں اتنی ہی مسافت تک اس کے نور کی شعاعیں دوڑ رہی ہوں گی۔ یہاں ایک سوال آدمی کے ذہن میں کھٹک پیدا کرسکتا ہے۔ وہ یہ کہ آگے آ گے نور کا دوڑنا تو سمجھ میں آتا ہے، مگر نور کا صرف دائیں جانب دوڑنا کیا معنی ؟ کیا ان کے بائیں جانب تاریکی ہوگی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ایک شخص اپنے دائیں ہاتھ پر روشنی لیے ہوئے چل رہا ہو تو اس سے روشن تو بائیں جانب بھی ہوگی مگر امر واقعہ یہی ہوگا کہ روشنی اس کے دائیں ہاتھ پر ہے۔ اس بات کی وضاحت نبی ﷺ کی وہ حدیث کرتی ہے جسے حضرت ابوذر اور ابوالدرداء نے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا اعرفہم بنورھم الذی یسعیٰ بین ایدیھم و عن ایمانہم و عن شمائلہم " میں اپنی امت کے صالحین کو وہاں ان کے اس نور سے پہچانوں گا جو ان کے آگے اور ان کے دائیں اور بائیں دوڑ رہا ہوگا " (حاکم، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ)۔
Top