Tafheem-ul-Quran - Al-Hadid : 23
لِّكَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَ لَا تَفْرَحُوْا بِمَاۤ اٰتٰىكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِۙ
لِّكَيْلَا : تاکہ نہ تَاْسَوْا : تم افسوس کرو عَلٰي مَا : اوپر اس کے جو فَاتَكُمْ : نقصان ہوا تم کو۔ کھو گیا تم سے وَلَا تَفْرَحُوْا : اور نہ تم خوش ہو بِمَآ اٰتٰىكُمْ ۭ : ساتھ اس کے جو اس نے دیا تم کو وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا : نہیں يُحِبُّ : پسند کرتا كُلَّ مُخْتَالٍ : ہر خود پسند فَخُوْرِۨ : فخر جتانے والے کو
(یہ سب کچھ اس لیے ہے) تاکہ جو کچھ بھی نقصان تمہیں ہو اس پر تم دل شکستہ نہ ہو اور جو کچھ اللہ تمہیں عطا فرمائے اس پر پھول نہ جاؤ 42۔ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور فخر  جتاتے ہیں
سورة الْحَدِیْد 42 اس سلسلہ بیان میں یہ بات جس غرض کے لیے فرمائی گئی ہے اسے سمجھنے کے لیے ان حالات کو نگاہ میں رکھنا چاہیے جو اس سورت کے نزول کے وقت اہل ایمان کو پیش آ رہے تھے۔ ہر وقت دشمنوں کے حملے کا خطرہ، پے در پے لڑائیاں دائماً محاصرہ کی سی کیفیت، کفار کے معاشی مقاطعہ کی وجہ سے سخت بد حالی، عرب کے گوشے گوشے میں ایمان لانے والوں پر کفار کا ظلم و ستم، یہ کیفیات تھیں جن سے مسلمان اس وقت گزر رہے تھے۔ کفار ان کو مسلمانوں کے مخذول اور راندۂ درگاہ ہونے کی دلیل قرار دیتے تھے۔ منافقین انہیں اپنے شکوک و شبہات کی تائید میں استعمال کرتے تھے۔ اور مخلص اہل ایمان اگرچہ بڑی ثابت قدمی کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کر رہے تھے، مگر بعض اوقات مصائب کا ہجوم ان کے لیے بھی انتہائی صبر آزما ہوجاتا تھا۔ اس پر مسلمانوں کو تسلی دینے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ تم پر کوئی مصیبت بھی معاذاللہ تمہارے رب کی بیخبر ی میں نازل نہیں ہوگئی ہے۔ جو کچھ پیش آ رہا ہے، یہ سب اللہ کی طے شدہ اسکیم کے مطابق ہے جو پہلے سے اس کے دفتر میں لکھی ہوئی موجود ہے۔ اور ان حالات سے تمہیں اس لیے گزارا جا رہا ہے کہ تمہاری تربیت پیش نظر ہے۔ جو کار عظیم اللہ تعالیٰ تم سے لینا چاہتا ہے اس کے لیے یہ تربیت ضروری ہے۔ اس سے گزارے بغیر تمہیں کامیابی کی منزل پر پہنچا دیا جائے تو تمہاری سیرت میں وہ خامیاں باقی رہ جائیں گی جن کی بدولت نہ تم عظمت و اقتدار کی ثقیل خوراک ہضم کرسکو گے اور نہ باطل کی طوفان خیز موجوں کے تھپیڑے سہہ سکو گے۔
Top