Tafheem-ul-Quran - Al-An'aam : 80
وَ حَآجَّهٗ قَوْمُهٗ١ؕ قَالَ اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰهِ وَ قَدْ هَدٰىنِ١ؕ وَ لَاۤ اَخَافُ مَا تُشْرِكُوْنَ بِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ رَبِّیْ شَیْئًا١ؕ وَسِعَ رَبِّیْ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا١ؕ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ
وَحَآجَّهٗ : اور اس سے جھگڑا کیا قَوْمُهٗ : اس کی قوم قَالَ : اس نے کہا اَتُحَآجُّوْٓنِّىْ : کیا تم مجھ سے جھگڑتے ہو فِي : میں اللّٰهِ : اللہ وَ : اور قَدْ هَدٰىنِ : اس نے مجھے ہدایت دے دی ہے وَ : اور لَآ اَخَافُ : نہیں ڈرتا میں مَا تُشْرِكُوْنَ : جو تم شریک کرتے ہو بِهٖٓ : اس کا اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّشَآءَ : چاہے رَبِّيْ : میرا رب شَيْئًا : کچھ وَسِعَ : احاطہ کرلیا رَبِّيْ : میرا رب كُلَّ شَيْءٍ : ہر چیز عِلْمًا : علم اَ : کیا فَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ : سو تم نہیں سوچتے
اس کی قوم اس سے جھگڑنے لگی تو اس نے قوم سے کہا ”کیا تم لوگ اللہ کے معاملے میں مجھ سے جھگڑتے ہو؟ حالانکہ اس نے مجھے راہِ راست دکھادی ہے۔ اور میں تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں سے نہیں ڈرتا، ہاں اگر میرا رب کچھ چاہے تو وہ ضرور ہوسکتا ہے۔ میرے رب کا عِلم ہر چیز پر چھایا ہوٴا ہے، پھر کیا تم ہوش میں نہ آوٴ گے؟54
سورة الْاَنْعَام 54 اصل میں لفظ تَذَکُّر استعمال ہوا ہے جس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص جو غفلت اور بھلاوے میں پڑا ہوا ہو وہ چونک کر اس چیز کو یاد کرلے جس سے وہ غافل تھا۔ اسی لیے ہم نے اَفَلَا تَتَذَکَّرُوْنَ کا یہ ترجمہ کیا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ تم جو کچھ کر رہے ہو، تمہارا اصلی و حقیقی رب اس سے بیخبر نہیں ہے، اس کا علم ساری چیزوں پر وسیع ہے، پھر کیا اس حقیقت سے واقف ہو کر بھی تمہیں ہوش نہ آئے گا ؟
Top