Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 85
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ
وَ : اور اِلٰي : طرف مَدْيَنَ : مدین اَخَاهُمْ : ان کے بھائی شُعَيْبًا : شعیب قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : نہیں تمہارا مِّنْ : سے اِلٰهٍ : معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا قَدْ جَآءَتْكُمْ : تحقیق پہنچ چکی تمہارے پاس بَيِّنَةٌ : ایک دلیل مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَاَوْفُوا : پس پورا کرو الْكَيْلَ : ناپ وَالْمِيْزَانَ : اور تول وَلَا تَبْخَسُوا : اور نہ گھٹاؤ النَّاسَ : لوگ اَشْيَآءَهُمْ : ان کی اشیا وَلَا تُفْسِدُوْا : اور فساد نہ مچاؤ فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں بَعْدَ : بعد اِصْلَاحِهَا : اس کی اصلاح ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور مَدیَن 69والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب ؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا ”اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی، اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ تمہارے پاس تمہارے ربّ کی صاف رہنمائی آگئی ہے، لہٰذا وزن اور پیمانے پُورے کرو، لوگوں کو اُن کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو70، اور زمین میں فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے71، اسی میں تمہاری بھلائی ہے اگر تم واقعی مومن ہو72
سورة الْاَعْرَاف 69 مدین کا اصل علاقہ حجاز کے شمال مغرب اور فلسطین کے جنوب میں بحر احمر اور خلیج عقبہ کے کنارے پر واقع تھا مگر جزیرہ نمائے سینا کے مشرقی ساحل پر بھی اس کا کچھ سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ یہ ایک بڑی تجارت پیشہ قوم تھی۔ قدیم زمانہ میں جو تجارتی شاہراہ بحِر احمر کے کنارے یمن سے مکہ اور ینبوع ہوتی ہوئی شام تک جاتی تھی، اور ایک دوسری تجارتی شاہراہ جو عراق سے مصر کی طرف جاتی تھی، اس کے عین چورا ہے پر اس قوم کی بستیاں واقع تھیں۔ اسی بناء پر عرب کا بچہ بچہ مدین سے واقف تھا اور اس کے مٹ جانے کے بعد بھی عرب میں اس کی شہرت برقرار رہی۔ کیونکہ عربوں کے تجارتی قافلے مصر اور شام کی طرف جاتے ہوئے رات دن اس کے آثار قدیمہ کے درمیان سے گزرتے تھے۔ اہل مَدیَن کے متعلق ایک اور ضروری بات، جس کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے، یہ ہے کہ یہ لوگ دراصل حضرت ابراہیم ؑ کے صاحبزادے مدیان کی طرف منسوب ہیں جو ان کی تیسری بیوی قَطُوراء کے بطن سے تھے۔ قدیم زمانہ کے قاعدے کے مطابق جو لوگ کسی بڑے آدمی کے ساتھ وابستہ ہوجاتے تھے وہ رفتہ رفتہ اسی کی آل اولاد میں شمار ہو کر بنی فلاں کہلانے لگتے تھے، اسی قاعدے پر عرب کی آبادی کا بڑا حصہ بنی اسماعیل کہلایا۔ اور اولاد یعقوب کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہونے والے لوگ سب کے سب بنی اسرائیل کے جامع نام کے تحت کھپ گئے۔ اسی طرح مدین کے علاقے کی ساری آبادی بھی جو مدیان بن ابراہیم ؑ کے زیر اثر آئی، بنی مدیان کہلائی اور ان کے ملک کا نام ہی مدین یا مدیان مشہور ہوگیا۔۔ اس تاریخی حقیقت کو جان لینے کے بعد یہ گمان کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی کہ اس قوم کو دین حق کی آواز پہلی مرتبہ حضرت شعیب کے ذریعہ سے پہنچی تھی۔ درحقیقت بنی اسرائیل کی طرح ابتداء وہ بھی مسلمان ہی تھے اور شعیب ؑ کے ظہور کے وقت ان کی حالت ایک بگڑی ہوئی مسلمان قوم کی سی تھی جیسی ظہور موسیٰ ؑ کے وقت بنی اسرائیل کی حالت تھی۔ حضرت ابراہیم ؑ کے بعد چھ سات سو برس تک مشرک اور بداخلاق قوموں کے درمیان رہتے رہتے یہ لوگ شرک بھی سیکھ گئے تھے اور بداخلاقیوں میں بھی مبتلا ہوگئے تھے، مگر اس کے باوجود ایمان کا دعویٰ اور اس پر فخر برقرار تھا۔ سورة الْاَعْرَاف 70 اس سے معلوم ہوا کہ اس قوم میں دو بڑی خرابیاں پائی جاتی تھی۔ ایک شرک، دوسرے تجارتی معاملات میں بددیانتی۔ اور انہی دونوں چیزوں کی اصلاح کے لیے حضرت شعیب مبعوث ہوئے تھے۔ سورة الْاَعْرَاف 71 اس فقرے کی جامع تشریح اس سورة اعراف کے حواشی 44، 45 میں گزر چکی ہے۔ یہاں خصوصیت کے ساتھ حضرت شعیب کے اس قول کا ارشاد اس طرح ہے کہ دین حق اور اخلاق صالحہ پر زندگی کا جو نظام انبیائے سابقین کی ہدایت و رہنمائی قائم ہوچکا تھا، اب تم اسے اپنی اعتقادی گمراہیوں اور اخلاقی بدراہیوں سے خراب نہ کرو۔ سورة الْاَعْرَاف 72 اس فقرے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ خود مدعی ایمان تھے۔ جیسا کہ اوپر ہم اشارہ کرچکے ہیں، یہ دراصل بگڑے ہوئے مسلمان تھے اور اعتقادی و اخلاقی فساد میں مبتلا ہونے کے باوجود ان کے اندر نہ صرف ایمان کا دعویٰ باقی تھا بلکہ اس پر انہیں فخر بھی تھا۔ اسی لیے حضرت شعیب نے فرمایا کہ اگر تم مومن ہو تو تمہارے نزدیک خیر اور بھلائی راستبازی اور دیانت میں ہونی چاہیے اور تمہارے معیار خیر و شر ان دنیا پرستوں سے مختلف ہونا چاہیے جو خدا اور آخرت کو نہیں مانتے۔
Top