Tafseer-e-Majidi - Al-Anfaal : 62
وَ مَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُكَآءً وَّ تَصْدِیَةً١ؕ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ
وَمَا : اور نہیں كَانَ : تھی صَلَاتُهُمْ : ان کی نماز عِنْدَ : نزدیک الْبَيْتِ : خانہ کعبہ اِلَّا : مگر مُكَآءً : سیٹیاں وَّتَصْدِيَةً : اور تالیاں فَذُوْقُوا : پس چکھو الْعَذَابَ : عذاب بِمَا : اس کے بدلے جو كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے تھے
بیت اللہ کے پاس ان لوگوں کی نماز کیا ہوتی ہے ، بس سیٹیاں بجاتے اور تالیاں پیٹتے ہیں28، پس اب لو، اِس عذاب کا مزہ چکھو اپنے اُس انکارِ حق کی پاداش میں جو تم کرتے رہے ہو۔29
سورة الْاَنْفَال 28 یہ اشارہ اس غلط فہمی کی تردید میں ہے جو لوگوں کے دلوں میں چھپی ہوئی تھی اور جس سے عام طور پر اہل عرب دھوکا کھا رہے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ قریش چونکہ بیت اللہ کے مجاور اور متولی ہیں اور وہاں عبادت بجا لاتے ہیں اس لیے ان پر اللہ کا فضل ہے۔ اس کے رد میں فرمایا کہ محض میراث میں مجاورت اور تولیت پالینے سے کوئی شخص یا گروہ کسی عبادت گاہ کا جائز مجاور ومتولی نہیں ہوسکتا۔ جائز مجاور و متولی تو صرف خدا ترس اور پرہیزگار لوگ ہی ہو سکتے ہیں۔ اور ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ ایک جماعت کو، جو خالص خدا کی عبادت کرنے والی ہے، اس عبادت گاہ میں آنے سے روکتے ہیں جو خا لص خدا کی عبادت ہی کے لیے وقف کی گئی تھی۔ اس طرح یہ متولی اور خادم بن کر رہنے کے بجائے اس عبادت گاہ کے مالک بن بیٹھے ہیں اور اپنے آپ کو اس بات کا مختار سمجھنے لگے ہیں کہ جس یہ ناراض ہوں اسے عبادت گاہ میں نہ آنے دیں۔ یہ حرکت ان کے ناخدا ترس اور ناپرہیز گار ہونے کے صریح دلیل ہے۔ رہی ان کی عبادت جو وہ بیت اللہ میں کرتے ہیں تو اس کے اندر نہ خضوع و خشوع ہے، نہ تو جہ الی اللہ ہے، نہ ذکر الہٰی ہے، بس ایک بےمعنی شور و غل اور لہو و لعب ہے جس کا نام انہوں نے عبادت رکھ چھوڑا ہے۔ ایسی نام و نہاد خدمت بیت اللہ اور ایسی جھوٹی عبادت پر آخر یہ فضل الہٰی کے مستحق کیسے ہوگئے اور یہ چیز انہیں عذاب الہٰی سے کیونکر محفوظ رکھ سکتی ہے ؟ سورة الْاَنْفَال 29 وہ سمجھتے تھے کہ عذاب الہٰی صرف آسمان سے پھتروں کی شکل میں یا کسی اور طرح قوائے فطرت کے ہیجان ہی کی شکل میں آیا کرتا ہے۔ مگر یہاں انہیں بتایا گیا ہے کہ جنگ بدر میں ان کی فیصلہ کن شکست، جس کی وجہ سے اسلام کے لیے زندگی کا اور قدیم نظام جاہلیت کے لیے موت کا فیصلہ ہوا ہے، دراصل ان کے حق میں اللہ کا عذاب ہی ہے۔
Top