Tafseer-al-Kitaab - Al-Baqara : 35
وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا١۪ وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَقُلْنَا : اور ہم نے کہا يَا آدَمُ : اے آدم اسْكُنْ : تم رہو اَنْتَ : تم وَزَوْجُکَ : اور تمہاری بیوی الْجَنَّةَ : جنت وَكُلَا : اور تم دونوں کھاؤ مِنْهَا : اس میں سے رَغَدًا : اطمینان سے حَيْثُ : جہاں شِئْتُمَا : تم چاہو وَلَا تَقْرَبَا : اور نہ قریب جانا هٰذِهِ : اس الشَّجَرَةَ : درخت فَتَكُوْنَا : پھر تم ہوجاؤگے مِنَ الظَّالِمِیْنَ : ظالموں سے
پھر ہم نے آدم سے کہا، '' (اے آدم) تم اور تمہاری بیوی، دونوں جنت میں رہو اور اس میں جہاں کہیں سے تمہارا جی چاہے با فراغت کھاؤ (پیو) مگر اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ تم ظالموں میں (شمار) ہوگے ''۔
[29] ظلم حق تلفی کو کہتے ہیں۔ ظالم وہ ہے جو کسی کا حق تلف کرے۔ اللہ کی نافرمانی سے تین بنیادی حقوق تلف ہوتے ہیں۔ اول اللہ کا حق کیونکہ وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کی فرمانبرداری کی جائے۔ دوم ان تمام چیزوں کے حقوق جن کو اس نے اس نافرمانی کے ارتکاب میں استعمال کیا۔ چاہے وہ اس کے اپنے اعضاء ہوں یا دوسرے انسان اور اشیاء ان کا اس پر یہ حق تھا کہ وہ صرف اللہ کی ہی مرضی کے مطابق ان کو استعمال کرے مگر جب اس کی مرضی کے خلاف ان کو استعمال کیا تو درحقیقت ان پر ظلم کیا۔ سوم خود اپنا حق کیونکہ اس پر اس کی ذات کا یہ حق ہے کہ اسے تباہی سے بچائے مگر اللہ کی نافرمانی کر کے اپنے آپ کو سزا کا مستحق بناتا ہے تو دراصل اپنی ذات پر ظلم کرتا ہے۔
Top