Tafseer-al-Kitaab - Al-Baqara : 36
فَاَزَلَّهُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِیْهِ١۪ وَ قُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ١ۚ وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ
فَاَزَلَّهُمَا : پھر ان دونوں کو پھسلایا الشَّيْطَانُ : شیطان عَنْهَا : اس سے فَاَخْرَجَهُمَا : پھر انہیں نکلوا دیا مِمَّا ۔ کَانَا : سے جو۔ وہ تھے فِیْهِ : اس میں وَقُلْنَا : اور ہم نے کہا اهْبِطُوْا : تم اتر جاؤ بَعْضُكُمْ : تمہارے بعض لِبَعْضٍ : بعض کے عَدُوْ : دشمن وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے فِي الْاَرْضِ : زمین میں مُسْتَقَرٌّ : ٹھکانہ وَمَتَاعٌ : اور سامان اِلٰى۔ حِیْنٍ : تک۔ وقت
پھر (ایسا ہوا کہ) شیطان ان کو (بہلا پھسلا کر) جنت سے ہٹا لے گیا اور جس (مزے) میں تھے اس سے ان کو نکلوا چھوڑا۔ اور ہم نے حکم دیا (تم سب یہاں سے) اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور (اب) زمین میں تمہارے لئے ایک (خاص) مدت تک ٹھکانا اور سامان (زیست) ہے۔
[30] یعنی جنت سے اتر جاؤ۔ خطاب محض آدم اور حوا سے نہیں بلکہ ابلیس سے بھی ہے، اسی لئے خطاب میں صیغہ تثنیہ کا نہیں جمع کا ہے۔ [31] دنیا میں انسان بھی انسان کا دشمن ہے لیکن اصل دشمنی تو ذریت آدم سے ذریت ابلیس کو ہے۔ انسانوں کے درمیان بھی اگر دشمنی و عداوت ہوتی ہے تو وہ بھی شیطان کی کوششوں سے ہوتی ہے ورنہ اولاد آدم کے اندر فطری ربط وتعلق دراصل اخوت و محبت کا ہے۔
Top