Tafseer-al-Kitaab - Al-An'aam : 225
لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَ یُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُوْنَۚ
لِيُحِقَّ : تاکہ حق ثابت کردے الْحَقَّ : حق وَيُبْطِلَ : اور باطل ثابت کردے الْبَاطِلَ : باطل وَلَوْ : خواہ كَرِهَ : ناپسند کریں الْمُجْرِمُوْنَ : مجرم (جمع)
تاکہ حق کو حق اور باطل کو باطل کر دکھائے خواہ مجرموں کو ناگوار ہی (کیوں نہ) لگے۔
[2] ہجرت کے دوسرے سال جب مشرکین مکہ مدینے پر حملے کی نیت سے روانہ ہوئے تو اس زمانے میں ان کا ایک تجارتی قافلہ شام سے مکہ آ رہا تھا اور مدینے کے قرب و جوار سے ہو کر گزرنے والا تھا۔ رسول اکرم ﷺ نے وحی الٰہی سے مطلع ہو کر فرمایا کہ ایک گروہ مکہ سے آ رہا ہے اور دوسرا قافلہ ہے۔ ان دو میں سے کسی ایک سے ضرور جنگ ہوگی۔ چونکہ قافلے کے ساتھ بہت تھوڑے آدمی تھے اس لئے مسلمانوں کی خواہش تھی کہ اس سے مقابلہ ہو اور مکہ والی فوج سے نہ لڑیں کیونکہ خود بڑی ہی بےسروسامانی کی حالت میں تھے۔ مگر رسول اکرم ﷺ نے لوگوں کے ان خیالات کی پروا نہ کی اور حملہ آوروں کے مقابلے کا فیصلہ کرلیا۔ اگرچہ مسلمانوں نے آپ کا فیصلہ مان لیا تھا لیکن ان میں سے ایک گروہ دل میں سخت ہراساں تھا اور اسے ایسا نظر آتا تھا کہ گویا موت کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہے۔ یہاں اسی واقعے کا ذکر ہے۔
Top