Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 53
وَ اِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِهٖۤ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَاۤ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِیْنَ
وَاِذَا : اور جب يُتْلٰى عَلَيْهِمْ : پڑھا جاتا ہے ان پر (سامنے) قَالُوْٓا : وہ کہتے ہیں اٰمَنَّا بِهٖٓ : ہم ایمان لائے اس پر اِنَّهُ : بیشک یہ الْحَقُّ : حق مِنْ رَّبِّنَآ : ہمارے رب (کیطرف) سے اِنَّا كُنَّا : بیشک ہم تھے مِنْ قَبْلِهٖ : اس کے پہلے ہی مُسْلِمِيْنَ : فرماں بردار
اور جب یہ ان کو پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لے آئے یہ تو قطعی طور پر حق ہے ہمارے رب کی طرف ہم تو اسے پہلے ہی مانتے تھے
67 ہم تو اس کو پہلے ہی مانتے تھے : یعنی ہمارا تو کام ہی حق کو ماننا اور اس کے آگے سر تسلیم خم کردینا ہے اور بس۔ سو جب پیغام حق و ہدایت اس سے پہلے تورات و انجیل کی شکل میں ہمارے پاس آیا تو ہم نے اس کو قبول کرلیا تھا۔ اور اب جبکہ وہ قرآن پاک کے ابدی اور آخری پیغام کی شکل میں اترا تو ہم اس پر ایمان لے آئے۔ نیز ہم پہلی کتابوں پر اپنے ایمان کے ضمن میں بھی اس پر پہلے سے ہی ایمان رکھتے تھے۔ کیونکہ ان کتابوں کے اندر اس کا تذکرہ موجود تھا۔ اور یوں بھی تمام کتابوں کا مرکزی پیغام ہمیشہ ایک ہی رہا۔ یہودیت اور نصرانیت وغیرہ کے ناموں سے اس پر جو اضافے کئے گئے وہ لوگوں نے اپنی طرف سے بعد میں کئے۔ ورنہ اٹل حقیقت یہی ہے کہ ۔ { إنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الاَسْلام } ۔ کہ دین حق تو اللہ کے یہاں ہمیشہ ایک ہی رہا یعنی اسلام۔ اس لئے ہم پہلے قرآن حکیم پر ضمنی اور اجمالی طور پر ایمان رکھتے تھے اور اب اس پر صریح، واضح اور تفصیلی طور پر ایمان لے آئے ہیں۔ لفظِ { مسلمین } سے یہ بات نکلتی ہے کہ ہم پہلے سے ہی اپنے آپ کو اس کتاب موعود اور اس رسول خاتم کے حوالے کردینے کے منتظر تھے۔ چناچہ جب ہم نے ان کو پایا اور ان کو پرکھ کر دیکھا اور اطمینان کرلیا کہ یہ وہی پیغمبر ہیں جن کے ہم منتظر تھے تو ہم فوراً اور بغیر کسی لیت و لعل کے ان پر ایمان لے آئے۔ اور یہی شان ہوتی ہے سلیم الطبع لوگوں کی۔
Top