Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 151
وَ اِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِهٖۤ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَاۤ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِیْنَ
وَاِذَا : اور جب يُتْلٰى عَلَيْهِمْ : پڑھا جاتا ہے ان پر (سامنے) قَالُوْٓا : وہ کہتے ہیں اٰمَنَّا بِهٖٓ : ہم ایمان لائے اس پر اِنَّهُ : بیشک یہ الْحَقُّ : حق مِنْ رَّبِّنَآ : ہمارے رب (کیطرف) سے اِنَّا كُنَّا : بیشک ہم تھے مِنْ قَبْلِهٖ : اس کے پہلے ہی مُسْلِمِيْنَ : فرماں بردار
اور جب (قرآن) اُن کو پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لے آئے بیشک وہ ہمارے پروردگار کی طرف سے برحق ہے اور ہم تو اس سے پہلے کے حکمبردار ہیں
واذا یتلی علیھم قالو امنا بہ انہ الحق من ربنا انا کنا من قبلہ مسلمین . اور جب (قرآن) ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے بلاشبہ یہ ہی سچا ہے ہمارے رب کی طرف سے (اترا ہے) ہم تو اس سے پہلے ہی مسلم (اطاعت گزار) تھے۔ ہم اس پر ایمان لائے یعنی اس بات پر ایمان لائے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ مُسْلِمِیْنَ یعنی اقرار توحید میں مخلص تھے ‘ محمد ﷺ کے نبی ہونے پر ایمان رکھتے تھے۔ پہلے سے رسول اللہ کی نبوت پر ایمان رکھنے کی یہ وجہ تھی کہ حضرت عیسیٰ نے رسول اللہ کی بشارت دے دی تھی اور فرما دیا تھا مُبْشِّرًا بِّرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْم بَعْدِیْ اسْمُہٗ اَحْمَدُ اور رسول اللہ کا ذکر توریت میں بھی تھا اور انجیل میں بھی۔ مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ پر ہمارا ایمان نیا نہیں بلکہ پہلے سے ہے۔ ممکن ہے کہ جملہ اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ مُسْلِمِیْنَ استینافیہ نہ ہو بلکہ رَبَّنَا اْمَنَّا بِہٖ کا بیان ہو رَبَّنَا اْمَنَّا میں ایمان جدید و قدیم دونوں کا احتمال تھا۔ اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ سے ایمان جدید کا احتمال زائل ہوگیا۔
Top