Tafseer-e-Baghwi - An-Nahl : 33
وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ١ؕ وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا
وَ : اور لَا تَقْتُلُوا : نہ قتل کرو النَّفْسَ : جان الَّتِيْ : وہ جو کہ حَرَّمَ اللّٰهُ : اللہ نے حرام کیا اِلَّا : مگر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَمَنْ : اور جو قُتِلَ : مارا گیا مَظْلُوْمًا : مظلوم فَقَدْ جَعَلْنَا : تو تحقیق ہم نے کردیا لِوَلِيِّهٖ : اس کے وارث کے لیے سُلْطٰنًا : ایک اختیار فَلَا يُسْرِفْ : پس وہ حد سے نہ بڑھے فِّي الْقَتْلِ : قتل میں اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے مَنْصُوْرًا : مدد دیا گیا
اور جب ان سے کہا جاتا ہے : کیا چیز نازل کی ہے تمہارے پروردگار نے تو کہتے ہیں : وہ تو محض اگلے وقتوں کے قصے ہیں
دگنے عذاب کا ذکر شان نزول : جس کا حاصل یہ ہے کہ حج کے موسم میں دور دور کے لوگ مکہ میں آتے تھے جس سے قریش کو ڈر ہوا کہ باہر کے لوگ آنحضرت ﷺ کی باتیں سن کر بت پرستی نہ چھوڑ دیں۔ اس لئے قریش نے مکہ کے چاروں طرف لوگ بٹھادئیے تھے اور ان سے یہ کہہ دیا تھا کہ جو کوئی قرآن شریف کا حال پوچھے تو کہہ دینا کہ پہلے لوگوں کی ایک کہانی ہے، وہ یہی کہہ دیتے تھے اور جب وہ باہر کے لوگ مکہ کے اندر آتے تو جو لوگ مسلمان ہوگئے تھے وہ قرآن شریف کی بہت تعریف کرتے تھے۔ اسی ذکر میں اللہ تعالیٰ نے آیہ کا یہ ٹکڑا اور اگلا ٹکڑا ذکر فرمایا جس میں قرآن شریف کی تعریف کرنے والوں کا ذکر اور اس ٹکڑے میں جو لوگ اوروں کو بہکاتے ہیں ان پر قیامت میں دوگنا عذاب ہوگا۔ ان کے گناہوں کا جدا ہوگا اور بہکانے کا جدا ہوگا۔
Top