Urwatul-Wusqaa - Hud : 69
وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًا١ؕ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ
وَلَقَدْ جَآءَتْ : اور البتہ آئے رُسُلُنَآ : ہمارے فرشتے اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم بِالْبُشْرٰي : خوشخبری لے کر قَالُوْا : وہ بولے سَلٰمًا : سلام قَالَ : اس نے کہا سَلٰمٌ : سلام فَمَا لَبِثَ : پھر اس نے دیر نہ کی اَنْ : کہ جَآءَ بِعِجْلٍ : ایک بچھڑا لے آیا حَنِيْذٍ : بھنا ہوا
اور یہ واقعہ ہے کہ ہمارے بھیجے ہوئے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس خوشخبری لے کر آے تھے ، انہوں نے کہا تم پر سلامتی ہو ، کہا تم پر بھی سلامتی ہو ، پھر فوراً ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آیا
ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس بھیجے گئے ملائکہ رسولوں کا مختصر ذکر 92 ؎ زیر نظر آیت میں ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمانوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں کہیں ان کو ” مہمان “ کہا گیا ہے اور کہیں ” بھیجے ہوئے “ یعنی ” رسلنا “ اور ” ضعیف “ کے الفاظ آئے ہیں اس لئے بعض مفسرین نے اس جگہ بحث کی ہے کہ یہ ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمان یا ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف بھیجے گئے کون تھے ؟ یعنی فرشتے تھے یا انسان ؟ پھر بعض مفسرین نے ان کو فرشتے ثابت کرنے کیلئے اپنے دلائل پیش کئے ہیں اور بعض نے ان کو انسان ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے پہلے مفسرین کی تعداد زیادہ اور دوسرے مفسرین کی تعداد کم ہے لیکن ہمارے نزدیک یہ بحث محض وقت کا ضیاع ہے کیونکہ جن مفسرین نے ان کے انسان ہونے پر زور دیا ہے اس کی ان کو ضرورت یہ محسوس ہوئی ہے کہ اس آیت سے فرشتوں کا انسان وجود ہونا ثابت ہوتا ہے اور فرشتے کا کوئی وجود ذاتی تسلیم نہیں۔ ان کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے تھی کہ وجود کی پانچ اقسام اسلام میں تسلیم کی گئی ہیں ان میں بلاشبہ پہلا وجود ذاتی ہے اور جب یہ طے ہے کہ فرشتے اور جن کوئی وجود ذاتی نہیں رکھتے ان کا تعلق باقی چار وجودوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہے خواہ وہ وجود حسی ہے یا خیالی خواہ عقلی ہے یا شبہی تو بعینہ اس طرح فرشتوں کا جو وجود یہاں بیان کیا گیا ہے وہ ذاتی نہیں کیونکہ وہ ذاتی یا حقیقی وجود ہی نہیں رکھتے اور پھر وہ وجود جو غیر متبدل ہے وہ وجود ذاتی یا حقیقی ہے باقی چاروں اقسام غیر متبدل نہیں لہٰذا اگر یہ فرشتے تھے تو ظاہر ہے کہ ان کا وجود غیر متبدل نہیں اس لئے اس بحث کے اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہاں ! جن لوگوں نے ان کو انسان تسلیم کیا ہے وہ اس خیال سے کیا ہے کہ انسان کا جسم غیر متبدل ہے اس لئے اگر وہ فی الواقعہ انسان تھے تو ان کو فرشتے کیوں تسلیم کیا جا رہا ہے ؟ حالانکہ جن لوگوں نے ان کو فرشتہ تسلیم کیا ہے انہوں نے ان کا وجود کہیں بھی غیر متبدل نہیں بیان کیا۔ اس لئے ہم وہ مفہوم مراد لیتے ہیں جو اکثر مفسرین نے لیا ہے کہ وہ فرشتے تھے اور ان کا جسم انسانی غیر متبدل نہیں تھا۔ بلکہ متبدل تھا کیونکہ فرشتہ کوئی ذاتی وجود نہیں رکھتا۔ وجود کی اقسام دیکھنا مطلوب ہوں تو عروۃ الوثقی جلد اول سورة البقرہ کی آیت 30 کی تفسیر پر ایک نظر ڈال لیں بات انشاء اللہ سمجھ میں آجائے گی۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آنے والے مہمان دراصل لوط (علیہ السلام) کے پاس بھیجے گئے تھے لیکن لوط (علیہ السلام) سے پہلے ان کو یہ کہا گیا کہ تم ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس سے ہوتے جائو اور ان سے مل کر ان کی اہلیہ سارہ ؓ کو بیٹے اسحاق اور پوتے یعقوب کی پیدائش کی خوشخبری سناتے جائو۔ چناچہ جب وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو آپ علیک سلیک کے بعد جلدی سے اٹھے اور ان کی ضیافت کا سامان کر لائے اور ان کی مہمانی کیلئے ایک بھنا ہوا بچھڑا ان کو پیش کیا۔ جب مہمانوں کے سامنے دستر خوان چن دیا گیا اور ان کو کھانے کیلئے اشارہ کیا گیا کہ بسم اللہ کیجئے تو مہمانوں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا۔
Top