Bayan-ul-Quran - An-Nisaa : 97
فَلَمَّا رَاٰۤ اَیْدِیَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَیْهِ نَكِرَهُمْ وَ اَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةً١ؕ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمِ لُوْطٍؕ
فَلَمَّا : پھر جب رَآٰ اَيْدِيَهُمْ : اس نے دیکھے ان کے ہاتھ لَا تَصِلُ : نہیں پہنچتے اِلَيْهِ : اس کی طرف نَكِرَهُمْ : وہ ان سے ڈرا وَاَوْجَسَ : اور محسوس کیا مِنْهُمْ : ان سے خِيْفَةً : خوف قَالُوْا : وہ بولے لَا تَخَفْ : تم ڈرو مت اِنَّآ اُرْسِلْنَآ : بیشک ہم بھیجے گئے ہیں اِلٰي : طرف قَوْمِ لُوْطٍ : قوم لوط
پھر جب اس نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے نہیں تو ان سے بدگمان ہوا اور جی میں ڈرا (کہ یہ بات کیا ہے ؟ ) انہوں نے کہا خوف نہ کر ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں
ابراہیم (علیہ السلام) کا ان مہمانوں سے ڈر محسوس کرنا اور مہمانوں کی گزارش کا ذکر 93 ؎ جب مہمانوں نے کھاتے کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا تو ابراہیم (علیہ السلام) حیران ہوئے کہ یہ کیا ماجرا ہے ؟ چونکہ وہ بالکل اجنبی تھے اور ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی ان کو اجنبی ہی سمجھا تھا اس لئے قدرتی طور پر کچھ دل میں خدشہ محسوس ہوا جس کے آثار ان کے چہرے سے محسوس ہونے لگے اس لئے وہ مہمان بھی ان کا ” تغیرلون “ سمجھ گئے اور فوراً انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) سے کہہ دیا کہ آپ کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں دراصل ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں اور اس طرف کو جا رہے ہیں کھانے کی ہم کو حاجت نہیں۔ آیت 69 ، 70 سے جو نصیحت ہم کو ملتی ہے وہ یہ ہے کہ آنے والے کو پہلے السلام علیکم کہنا چاہئے اور جس کو سلام کیا جائے اس کو بھی اس کے جواب میں وعلیکم السلام کہنا لازم و ضروری ہے اور یہ علیک سلیک و دعا خوش اخلاقی کے ساتھ ہونی چاہئے۔ دوسری نصیحت ہمارے لئے یہ ہے کہ مہمان کو دیکھ کر اس کے اکرام میں اس کو ماحضر بےتکلف پیش کردینا چاہئے خصوصاً جب کھانے کا معروف وقت بھی موجود ہو۔ تیسری نصیحت یہ ہے کہ مہمان اگر کسی وجہ سے کھانے کی طرف رغبت نہ کرے اور معذرت کرلے تو برا نہ جاننا چاہئے اور اس کو زیادہ اصرار بھی نہ کرنا چاہئے اس سلسلہ میں جو اہتمام آپ نے کیا ہے اس کا اجر ہر حال میں محفوظ ہوگیا ہاں ! میزبان کو اگر علم ہوجائے کہ میرے لئے اہتمام کیا جانے لگا ہے تو اگر اس کو ضرورت نہ ہو تو وہ خود پہل کر کے اس وقت ضرورت نہ ہونے کا کہہ سکتا ہے بشرطیکہ فی الواقع اس کو ضرورت نہ ہو۔ ہمارے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ” من کان یومن باللہ والیوم الاخر فلیکرم ضیفہ ” جو شخص اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت و تکریم کرے۔ “ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اسلام کی ان ضروری ہدایات کے مطابق بہت کم عمل کیا جاتا ہے۔ مہمان سے بار بار استفسار کیا جائے گا کہ آپ کیا پسند کریں گے ؟ اگر وہ نفی کرے تو بار بار اصرار ہوگا اور اگر اس نے کہہ دیا کہ ” تمہارا شوق “ تو جو کچھ کریں گے دل پر بہت بوجھ رکھ کر کریں گے اور بعد میں کہیں گے کہ یار بڑا بےشرم تھا کتنی جلدی ہاں کرلی اور بعض لوگ جو کچھ پیش کریں گے ساتھ ساتھ فرماتے جائیں گے کہ یہ دیکھو یہ لو بہت ہی مزیدار ہے ہم یہ تو بس آپ کی خاطر میں لائے ہیں۔ دیکھو کتنا مزہ آیا ہے یہ اور اس طرح کی کتنی ہی باتیں کہتے جائیں گے۔ بعض کبھی نہیں پوچھیں گے اس طرح بعض میزبان کو حاجت ہوگی لیکن وہ نہ ، نہ کرتے رہیں گے اور جب تک خوب اصرار نہ کرلیا جائے وہ ضرورت ہونے کے باوجود ہاتھ نہ بڑھائیں گے۔ لیکن اسلام نے بڑی وسعت کے ساتھ اور صاف دل کو پسند کیا ہے اور ایسے کاموں کیلئے بار بار اصرار دونوں ہی طرف سے اچھا نہیں سمجھا گیا بلکہ ضرورت کے مطابق صحیح صحیح عمل کی تلقین فرمائی ہے۔
Top