Urwatul-Wusqaa - Hud : 95
كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَا١ؕ اَلَا بُعْدًا لِّمَدْیَنَ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُوْدُ۠   ۧ
كَاَنْ : گویا لَّمْ يَغْنَوْا : وہ نہیں بسے فِيْهَا : اس میں (وہاں) اَلَا : یاد رکھو بُعْدًا : دوری ہے لِّمَدْيَنَ : مدین کے لیے كَمَا بَعِدَتْ : جیسے دور ہوئے ثَمُوْدُ : ثمود
گویا ان گھروں میں وہ کبھی بسے ہی نہ تھے تو سن رکھو کہ قبیلہ مدین کے لیے بھی محرومی ہوئی جس طرح قوم ثمود کے لیے محرومی ہوئی ہے
ان کی بستیوں کو جب دیکھنے والوں نے دیکھا تو ایسی تھیں گویا یہاں کبھی کوئی بسا ہی نہیں ۔ 121 شعیب (علیہ السلام) کی قوم کی گئی ہوئی مدت کی آخری رات جو آئی تو عین اس وقت جب وہ اپنے اپنے گھروں میں آرام کر رہے تھے تو یک بیک ایک ہولناک زلزلہ آیا اور ابھی یہ ہولناکی ختم نہ ہوئی تھی کہ اوپر سے آگ برسنے لگی اور ساتھ ہی سخت بارش کے چھینٹے شروع ہوگئے اور ان ساری باتوں کا جو نتیجہ نکلا وہ یہ تھا کہ صبح کو اس علاقہ سے باہر کے لوگوں نے جو آ کر دیکھا تو کل کے سرکش اور مغرور آج گھنٹوں کے بل اوندھے جھلسے ہوئے پڑے تھے۔ ہاں ! اس عذاب کی لپیٹ سے اگر کوئی بچا تو وہ وہی لوگ تھے جو شعیب (علیہ السلام) کے ساتھ ہجرت کر گئے تھے اور باقی اہل مدین بالکل اسی طرح ہلاک کردیئے گئے جیسے کہ ان سے پہلے ثمود کی قوم کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ اس آیت پر اس سورت میں شعیب (علیہ السلام) کا ذکر ختم ہوا۔ اب شعیب (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت ملاحظہ فرما لیں۔ سیدنا شعیب (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت شعیب (علیہ السلام) اور آپ کی قوم کا تذکرہ قرآن کریم کی سورة الاعراف ، ہود ، الحجر ، الشعراء اور سورة العنکبوت میں کیا گیا ہے۔ الاعراف ، ہود اور الشعراء میں قدرے تفصیل کے ساتھ اور باقی مقامات پر مختصر۔ شعیب السلام کی بعثت مدین یا مدیان میں ہوئی۔ مدین کسی مقام کا نام نہیں بلکہ قبیلہ کا نام ہے۔ یہ قبیلہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے مدین کی نسل سے تھا جو ان کی تیسری بیوی قطور اسے پیدا ہوا اس لئے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ خاندان بنو قطورا کے نام سے معروف ہے۔ اسی طرح ایک خاندان بنو سارہ اور دوسرا بنو ہاجرہ کے نام سے معروف ہے اور تینوں خاندانوں کی اصل سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) ہیں۔ ” مدین “ اپنے اہل و عیال کے ساتھ اپنے سوتیلے بھائی اسماعیل (علیہ السلام) کے پہلو ہی میں یعنی حجاز میں آباد تھا اور یہی خاندان آگے چل کر ایک بہت بڑا قبیلہ بن گیا اور شعیب (علیہ السلام) بھی چونکہ اسی نسل اور اسی قبیلہ سے تھے اس لئے ان کی بعثت کے بعد یہ قبیلہ ” قوم شعیب “ کہلایا۔ یہ قبیلہ کس مقام پر آباد تھا ؟ قرآن کریم نے اس قبیلہ کی آبادی کے متعلق ہم کو دو باتوں سے متعارف کرایا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے کہ ” وان کان اصحب الایکۃ لظلمین فانتقمنا منھم و انھما لبامام مبین (الحجر 15 : 78 ، 79) ” اور ایکہ والے بھی ظالم تھے تو دیکھ لو کہ ہم نے بھی ان سے انتقام لیا اور ان دونوں قوموں کے (اجڑے ہوئے) علاقے کھلے راستے پر واقع ہیں۔ “ ان دونوں سے مراد اصحاب الایکہ اور لوط کی قوم بتائی گئی ہے اور پھر یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ” اصحاب الایکہ “ اور ” مدین “ ایک ہی قوم کے دو نام ہیں۔ فرق ہے تو صرف یہ کہ ” مدین “ متمدن اور شہری علاقے کے لوگ تھے اور ” اصظحاب الایکہ “ دیہاتی اور بدوی قبیلہ جو جنگل اور بن میں آباد تھا اس لئے اس کو بن والا یا جنگل والا کہا گیا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ” ھما ‘ ذ سے مراد اس ایک قبیلہ کی دونوں شاخیں مراد ہیں یعنی دیہاتی اور شہری ۔ بہرحال معروف یہی ہے کہ ” مدین “ اور ” اصحاب الایکہ “ ایک ہی قبیلہ ہے جو باپ کی نسبت سے ” مدین “ کہلایا اور زمین کی طبعی اور جغرافیائی حیثیت سے ” اصحاب الایکہ “ کے لقب سے مشہور ہوا۔ بعض مورخین نے شعیب (علیہ السلام) کے زمانہ کا تعین کرنے میں ایک سخت غلطی کی ہے وہ یہ کہ انہوں نے شعیب (علیہ السلام) کا زمانہ موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ سے کافی بعد بتلایا ہے جو سراسر غلط اور لغو بات ہے۔ اس لئے قرآن کریم نے سورة الاعراف میں سیدنا نوح ، ہوں ، صالح ، لوط ، اور شعیب (علیہم السلام) کے ذکر کے بعد فرمایا ثثم بعثنا من بعدھم موسیٰ پھر ان سب کے بعد ہم نے موسیٰ کو مبعوث کیا اور یہی بات سورة یونس ، سورة الحج ، سورة ہود اور سورة العنکبوت میں کہی گئی۔ دراصل ان مورخین سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے یشعیا عل یہ السلام کی جگہ شعیب علیہ اسللام تحریر کردیا اس لئے کہ جس زمانہ کی نشاندہی کی گئی وہ بلاشبہ یشعیا ہی کا زمانہ ہے۔ (قصص الانبیاء للبخاری مصری ص 85 ء) بہرحال شعیب (علیہ السلام) جب اپنی قوم میں مبعوث ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور معصیت کا ارتکاب صرف افراد و اخاد میں ہی نہیں ہے بلکہ ساری قوم کی قوم گرداب ہلاکت میں ہے اور اپنی بد اعمالیوں میں اس قدر سرمست و سرشار ہے کہ ایک لمحہ کے لئے بھی ان کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے سب کا سب معصیت اور گناہ ہے بلکہ وہ اپنے ان اعمال کو باعث فخر سمجھتے تھے۔ ساری بد اخلاقیوں کی فہرست تو بہت لمبی ہے لیکن جن قبیح امور نے خصوصیت کے ساتھ ان میں رواج پا لیا تھا وہ یہ تھے : ۔ 1 بت پرستی اور مشرکانہ رسم و رواج۔۔ 2 خریدو فروخت میں کم تولنا ، کم ماپنا بلکہ دوسرے کو اس کے حق سے کم دینا اور خود اپنے حق سے زیادہ لینا۔۔ 3 اشیاء خوردنی اور دوسری ساری اشیاء صرف میں کھوٹ ملانا۔ ۔ 4 ڈاکہ زنی اور چوری کرنا اور مختصر طور پر اس کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ جو کچھ اس وقت ہماری قوم کی اکثریت کر رہی ہے وہی کچھ اس وقت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کرتی تھی۔ قوموں کے عام رواج کے مطابق دراصل اس وقت ان کی رفاہیت ، خوش عیشی ، دولت و ثروت کی فراوانی ، زمین اور باغوں کی بہتات اور زرخیزی و شادابی نے ان کو اس قدر مفرور بنا دیا تھا کہ وہ ان تمام امور کو اپنی ذاتی میراث اور اپنا خاندانی ہنر سمجھ بیٹھے تھے اور ایک ساعت کے لئے بھی ان کے دل میں یہ خطرہ نہیں گزرا تھا کہ یہ سب ان میں طرح طرح کی بد اخلاقیوں اور قسم قسم کے عیوب پیدا کردیئے جن کو آج کل کے ماحول میں سمجھنا کوئی مشکل بات نہیں۔ آخر الٰہی قانون حرکت میں آیا اور سنت اللہ کے مطابق ان کو راہ دکھانے ، فسق و فجور سے بچانے اور امین و متقی اور با خلاق بنانے کیلئے انہی میں سے ایک ہستی کو چن لیا اور شرف نبوت و رسالت سے نواز کر اس کو دعوت اسلام اور پیغام حق کا امام بنایا یہ ہستی شیب علہن السلام کی ذات گرامی تھی۔ اللہ کی وحدانیت اور شرک سے بیزاری کا اعتقاد تو تمام نبیوں اور رسولوں کی تعلیم کی مشترک بنیاد اور اصل ہے جو سیدنا شعیب (علیہ السلام) کے حصہ میں بھی آئی تھی مگر قوم کی مخصوص بد اخلاقیوں پر توجہ دلانے اور ان کو راہ راست پر لانے کے لئے انہوں نے اس قانون کو بھی اہمیت دی کہ خریدو فروخت کے معاملہ میں یہ ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہئے کہ جو جس کا حق ہے وہ پورا پورا اس کو ملے کہ دنیوی معاملات میں یہی ایک ایسی بنیاد ہے جو متزلزل ہوجانے کے بعد ہر قسم کے ظلم و فسق و فجور اور اسی طرح کی دوسری خرابیوں اور بد اخلاقیوں کا باعث بنتی ہے۔ الحاصل شعیب (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کو بد اعمالیوں کو دیکھ کر سخت دکھ محسوس کیا اور رشد و ہدایت کی تعلیم دیتے ہوئے قوم کو انہی اصولوں کی طرف بلایا جو دوسرے انبیائے کرام کی دعوت و ارشاد کا خلاصہ ہیں۔ فرمایا کہ اے میری قوم کے لوگو ! ایک اللہ کی عبادت کرو اس کے علاوہ کوئی پرستش کے لائق نہیں اور خریدو فروخت میں ناپ تول کو پورا رکھو اور لوگوں کے ساتھ معاملات میں کھوٹ نہ کرو اور نہ ہی لوگوں کی چیزوں میں کھوٹ ملائو۔ کل تک ممکن ہے کہ تم کو ان بد اخلاقیوں کی برائیوں کا حال معلوم نہ ہوا ہو مگر آج تمہارے پاس اللہ کی حجت ، نشانی اور برہان آ چکی ہے اسلئے اب جہل و نادانی ، عفو و درگزر کے قابل نہیں رہی۔ حق کو قبول کرو اور باطل سے باز آئو کہ یہی کامیابی اور کامرانی کی راہ ہے اور اللہ کی زمین میں فتنہ و فساد نہ کرو جب کہ لالہ نے اس کی صلاح و خیر کے تمام سامان مہیا کردیئے ہیں۔ اگر تم میں ایمان و یقین کی دولت و صداقت موجود ہے تو سمجھ لو کہ یہی فلاح و بہبود کی راہ ہے اور دیکھو ایسا نہ کرو کہ دعوت حق کی راہ کو روکنے اور لوگوں کو لوٹنے کے لئے ہر راہ پر جا بیٹھو اور جو آدمی بھی ایمان لائے اس کو لالہ کی راہ اختیار کرنے پر دھمکیاں دینے لگو اور اس میں کج روی پیدا کرنے کے درپے ہو جائو۔ اے میری قوم کے لوگو ! اس وقت کو یاد کرو اور اپنے اللہ کا احسان مانو کہ تم بہت تھوڑے تھے پھر اللہ نے تم کو امن و عافیت دے کر تمہاری تعداد کو بیش از بیش بڑھا دیا۔ اے میری قوم کے لوگو ! ذرا اس پر بھی غور کرو کہ جن لوگوں نے اللہ کی زمین پر فساد پھیلانے کا شیوہ اختیار کیا تھا ان کا انجام کس قدر عبرت ناک ہوا اور اگر تم میں سے ایک جماعت مجھ پر ایمان لے آئی اور ایک جماعت ایمان نہیں لائی تو صرف اتنی ہی بات پر معاملہ ختم ہوجانے والا نہیں بلکہ صبر کے ساتھ اتنظار کرو تا آنکہ اللہ ہمارے درمیان آخری فیصلہ کر دے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ شعیب (علیہ السلام) نہایت ہی فصیح وبلیغ مقرر تھے۔ شیریں کلامی ، حسن خطابت ، طرز بیان اور طاقت لسانی میں بہت نمایاں امتیاز رکھتے تھے اس لئے وہ آج تک خطیب الانبیاء کے لقب سے یاد کئے جاتے ہیں۔ پس انہوں نے نرم و گرم ہر طریقہ سے قوم کو رشد و ہدایت کے یہ کلمات ارشاد فرمائے مگر اس بدبخت قوم پر مطلق کوئی اثر نہ ہوا اور چند ضعیف اور کمزور ہستیوں کے علاوہ کسی نے پیغام برحق پر کان نہ دھرا وہ خود بھی اس طرح کے اس طرح بد اعمال رہے اور دوسروں کی راہ میں مارتے رہے۔ وہ راستوں میں بیٹھ جاتے اور شعیب (علیہ السلام) کے پاس آنے جانے والوں کو قبول حق سے روکتے اور اگر موقعہ لگ جاتا تو لوگوں کو لوٹ بھی لیتے اور اگر اس پر بھی کوئی خوش قسمت حق پر لبیک کہہ دیتا تو اس کو ڈراتے دھمکاتے اور طرح طرح سے کج روی پر آمادہ کرتے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود شعیب علیہ اسلام کی دعوت کا سلسلہ برابر جاری رہا تو ان میں سے سر بر آور وہ لوگوں نے جن کو اپنی شوکت و طاقت رپغرور تھا شعیب سے کہا اے شعیب ! دو باتوں میں سے ایک ضرور ہو کر رہے گی یا ہم تجھ کو اور تجھ پر ایمان لانے والوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے اور تیرا دیس نکالا کریں گے یا تم کو مجبور کریں گے کہ تم بھی سارے کے سارے پھر ہمارے دین میں واپس آ جائو جو ہمارے باپ دادا کا دین ہے۔ شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر تمہارے دین کو غلط اور باطل سمجھتے ہوں تب بھی زبردستی مان لیں یہ تو بڑا ظلم ہے ؟ اور جب کہ ہم کو اللہ رب العزت نے تمہارے اس دین سے نجات دے دی تو پھر ہم اس کی طرف لوٹ جائیں تو اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ ہم نے جھوٹ بول کر اللہ پر بہتان باندھا۔ یہ ناممکن ہے ہاں ! اگر اللہ کی یہی مرضی ہو تو وہ جو چاہے گا کرے گا ہمارے رب کا علم تمام چیزوں پر چھایا ہوا ہے ہمارا تو صرف اسی پر بھروسہ ہے۔ اے ہمارے رب ! تو ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق اور سچائی کے ساتھ فیصلہ فرما دے تو ہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ قوم کے سرداروں نے جب شعیب (علیہ السلام) کا یہ عزم و استقلال دیکھا تو اب ان سے روئے سخن پھیر کر اپنی قوم کے لوگوں سے کہنے لگے خبردار ! اگر تم نے شعیب کا کہنا مانا تو تم ہلاک و برباد ہو جائو گے۔ شعیب علیہ اسللام نے یہ بھی فرمایا کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اس لئے بھیجا ہے کہ میں اپنے مقدور بھر تمہاری اصلاح کی کوشش کروں اور میں جو کچھ کہتا ہوں اس کی صداقت اور سچائی کے لئے اللہ کی حجت ، دلیل اور نشانی بیم پیش کر رہا ہوں مگر افسوس کہ تم اس واضح حجت کو دیکھ کر بھی سرکشی و نافرمانی پر قائم ہو اور مخالفت کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو تم سے چھوٹا ہوا ہو ، پھر میں تم سے اپنی اس رشد و ہدایت کے بدلہ میں کوئی اجرت بھی نہیں مانگتا اور نہ ہی کسی دنیوی نفع کا طالب ہوں میرا اجر تو اللہ کے پاس ہے اور اگر تم اب بھی نہ مانو گے تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں اللہ کا عذاب تم کو ہلاک و برباد نہ کر ڈالے اس کا فیصلہ اٹل ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ اس کو رد کر دے۔ وہ پچھلی دعوتوں کے ساتھ یہی کرتا آیا ہے اور اب بھی وہی کچھ کرے گا کون ہے جو اس کو اس سے روک سکے۔ قوم کے سردار تیوری چڑھا کر بولے شعیب کیا تیری نماز ہم سے یہ چاہتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے بزرگوں ، دیوتائوں اور پیروں کو پوجنا چھوڑ دیں اور ہم کو اپنے مال و دولت میں یہ اختیار ہی نہ رہے کہ جس طرح چاہیں معاملہ کریں۔ اگر ہم کم تولنا چھوڑ دیں۔ لوگوں کی اشیاء صرف میں کھوٹ نہ کریں تو مفلس و قلاش ہو کر رہ جائیں۔ پس کیا ایسی تعلیم دینے میں تجھ کو کوئی متین اور سچا رہبر کہہ سکتا ہے۔ شعیب (علیہ السلام) نے نہایت ہی دل سوزی اور محبت کے ساتھ فرمایا کہ اے میری قوم کے لوگو ! مجھے یہ خوف لگ رہا ہے کہ تمہاری یہ بیباکیاں اور اللہ کے مقابلہ میں نافرمانیاں کہیں تمہارا بھی وہی انجام نہ کردیں جو تجھ سے پہلے قوم نوح قوم ہود قوم صالح اور قوم لوط کا ہوا ہے۔ اب بھی کچھ نہیں گیا اپنے اللہ کے سامنے جھک جائو اور اپنی بدکرداریوں کے لئے بخشش کے طلب گار بن جائو اور ہمیشہ کے لئے ان سے تائب ہو جائو بلاشبہ میرا پروردگار رحم کرنے والا اور بہت ہی مہربان ہے وہ تمہاری تمام خطائیں بخش دے گا۔ قوم کے سرداروں نے یہ سن کر جوابدیا۔ اے شعیب ! ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آتا تو کیا کہتا ہے ؟ تو ہم سب سے کمزور اور غریب ہے اگر تیری باتیں سچی ہوتیں تو تیری زندگی ہم سے زیادہ اچھی ہوتی اور سن لے کہ ہم کو صرف تیرے خاندان کا ڈر ہے ورنہ تجھ کو سنگسار کر کے رہتے تو ہرگز ہم پر غالب نہ آسکتا۔ یہ باتیں سن کر شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا افسوس ہے تم پر ! کیا تمہارے لئے اللہ کے مقابلہ میں میرا خاندان زیادہ ڈر کا باعث رہا ہے حالانکہ میرا رب تمہارے تمام اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور وہ دانا و بینا ہے۔ بہرحال اگر تم نہیں مانتے تو تم جانو ، تم وہ سب کچھ کرتے رہو جو کر رہے ہو عنقریب اللہ کا فیصلہ بتا دے گا کہ عذاب کا مستحق کون ہے اور کون جھوٹا اور کاذب ہے۔ تم بھی اتنظار کرو اور میں بھی انتظار کرتا ہوں ؟ انجام کار وہی ہوا جو قانون الٰہی کا ابدی و سرمدی فیصلہ ہے یعنی حجت وبرہان کی روشنی آنے کے بعد بھی جب باطل پر اصرار ہو اور اس کی صداقت کا مذاق اڑایا جائے اور اس کی اشاعت میں رکاوٹیں ڈلای جائیں تو پھر اللہ کا عذاب اسی مجرمانہ زندگی کا خاتمہ کردیتا ہے اور آنے والی قوموں کے لئے اس کو عبرت و موغطت بنا دیتا ہے۔ قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ نافرمانی اور سرکشی کی پاداش میں قوم شعیب کو دو قسم کے عذاب نے آگھیرا جیسا کہ اس سے پہلے لوط (علیہ السلام) کی قوم کے ساتھ ہوا تھا۔ ایک زلزلہ کا عذاب اور دوسرا آگ کی بارش کا عذاب یعنی جب وہ لوگ اپنے گھروں میں آرام کر رہے تھے تو یکایک ایک ہولناک زلزلہ آیا اور ابھی یہ ہولناکی ختم نہ ہوئی تھی کہ اوپر سے آگ برسنے لگی اور نتیجہ یہ نکلا کہ صبح کو دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کل کے سرکش اور مغرور آج گھنٹوں کے بل اوندھے جھلسے ہوئے پڑے ہیں۔ چناچہ قرآن کریم میں ہے کہ : (آیت) (الاعراف 7 : 91) ” پس ایسا ہوا کہ لرزا دینے والی ہولناکی نے انہیں آل یا اور جب ان پر صبح ہوئی تو گھروں میں اوندھے منہ پڑے تھے۔ (آیت) (الشعراء 26 : 189) ” انہوں نے اسے جھٹلا دیا آخر کار بادل والے عذاب نے (جس میں آگ تھی) آپکڑا ۔ بلاشبہ وہ بڑے ہی ہولناک دن کا عذاب تھا۔ “ شعب (علیہ السلام) کے ایک ارشاد پر بعض مفسرین نے کچھ ٹامک ٹوئی لگائی ہے کہ آپ نے قوم کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا ہے کہ : (آیت) (الاعراف 7 : 89) ہمارے لئے ممکن نہیں کہ اب قدم پیچھے ہٹائیں ہاں ! اللہ اگر چاہے تو ایسا ہو سکتا۔ اعتراض یہ ہے کہ یہ استثنئای صورت کو سنی ہے ؟ کیا اللہ ایسے چاہے گا۔ ذرا غور کرو کہ شعیب (علیہ السلام) نے جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے جس میں آپ اور آپ پر سارے ایمان لانے والے شامل ہیں۔ تو ایسا ممکن ہے کہ آپ پر ایمان لانے والوں میں سے وہ کسی کو ڈرا دھمکا کر بہکا لیں تو ایسا ہونا ممکن ہے اس لئے سب کی ذمہ داری لینا ممکن نہیں ہو سکتا اس لئے آپ نے پہلی ہی استثنائیہ جملہ ارشاد فرما دیا۔ یہ اس صورت میں ہے جب ’ دفیھا “ کی ضمیر کا مرجع مذکورہ ملت ہی سمجھا جائے مگر ہمارے نزدیک اس کا مرجع قریۃ بھی ہو سکتا ہے جس کا ذکر پہلے گزر چکا پس ” عود “ سے مراد عود الی الملۃ نہیں بلکہ عود الی القربۃ ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہم خود ہی اس بستی کو چھوڑ کر جانے والے ہیں پھر جب اللہ چاہے گا تو ہم فاتحانہ طور پر اس میں داخل ہوں گے یا تمہارے عذاب دیئے جانے کے بعد تمہاری نعشوں کو دیکھنے کے لئے حاضری دیں گے اور پھر ایسا ہی ہوا جب اللہ نے چاہا۔ اس کے بعد اس جگہ ان آیات کریمات کو جمع کردیا جانا ہے جن آیات میں شعیب (علیہ السلام) کی دعوت کا بیان آیا ہے اگر اس سے پہلے جو کچھ تحریر کیا گیا وہ بھی انہی آیات کا ماحصل ہے بہرحال ان آیات کا ترجمہ اس جگہ دیا جا رہا ہے اور آیات کی تلاوت مقصود ہو تو متن قرآن کریم سے مطالعہ کریں اور تفسیر کے دیکھنے کی ضرورت ہو تو تفسیر پر نظر کرلیں۔ ” اور مدین کی بستی میں شعیب کو بھیجا گیا کہ وہ انہی کے بھائی بندوں میں سے تھا۔ اس نے کہا بھائیو ! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ دیکھو تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل تمہارے سامنے آ چکی ۔ پس چاہئے کہ ماپ تول پورا پورا کیا کرو۔ لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو ملک کی درستی کے بعد اس میں خرابی نہ ڈالو۔ اگر تم ایمان رکھتے ہو تو یقین کرو اس میں تمہارے لئے بہترین ہے اور دیکھو ایسا نہ کرو کہ (لوگوں کے روکنے کے لئے) ہر راستہ پر جا بیٹھو اور جو آدمی بھی ایمان لائے اسے دھمکیاں دے کر اللہ کی راہ سے روکنے لگو اور اس میں غور کرو کہ جن لوگوں نے فساد کا شیوہ اختیار کیا تھا انہیں کیسا کچھ انجام پیش آچکا ہے اور اگر ایسا ہے کہ تم میں سے ایک گروہ اس تعلیم پر ایمان لے آیا ہے جس کی تبلیغ کے لئے میں بھیجا گیا ہوں اور دوسرا گروہ وہ جس کو اس پر یقین نہیں تو صبر کرو یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے اور وہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ اس پر قوم کے سرداروں نے جنہیں گھمنڈ تھا کہا کہ اے شعیب یا تو تجھے اور ان سب کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں ہم اپنے شہر سے ضرور نکال باہر کریں گے یا تمہیں مجبور کردیں گے کہ ہمارے دین میں لوٹ آئو۔ شعیب نے کہا اگر ہمارا دل تمہارے دین پر مطمئن نہ ہو تو کیا جبراً مان لیں گے ؟ اگر ہم تمہارے دین میں لوٹ آئیں حالانکہ اللہ نے ہم کو اس سے نجات دے دی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے جھوٹ بولتے ہوئے اللہ پر بہتان باندھا۔ ہمارے لئے ممکن نہیں کہ اب ہم قدم پیچھے ہٹائیں۔ ہاں ! اللہ جو چاہے گا وہ ہوگا ، کوئی چیز نہیں جس پر وہ اپنے علم سے چھایا ہوا نہ ہو ، ہمارے تمام بھروسہ اسی پر ہے۔ قوم کے سرداروں نے جو شعیب کی تعلیم سے انکاری تھے کہا کہ اگر تم نے شعیب کی پیروی کی تو بس سمجھ لو کہ تم برباد ہوئے۔ پس ایسا ہوا کہ ایک لرزا دینے والی ہولناکی نے انہیں آ لیا اور جب ان پر صبح ہوئی تو گھروں میں اوندھے منہ پڑے تھے۔ جن لوگوں نے شعیب کو جھٹلایا تھا ان کا حال ایسا ہوا کہ گویا و ان بستویں میں کبھی بسے ہی نہ تھے اس طرح جن لوگوں نے شعیب کو جھٹلایا تھا وہی برباد ہونے والے تھے۔ بہرحال شعیب ان سے کنارہ کش ہوگیا اس نے کہا بھائیو ! میں نے پروردگار کے پیغامات تمہیں پہنچا دیئے تھے اور تمہاری بہتری چاہی تھی تو میں نہ ماننے والوں پر اب کیسے افسوس کروں ؟ “ (الاعراف 7 : 85 تا 93) ” اور ہم نے قبیلہ مدین کی طرف اس کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ اس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو ، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ماپ تول میں کمی نہ کیا کرو۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم خوش حال ہو ، اللہ نے تمہیں بہت کچھ دے رکھا ہے ، میں ڈرتا ہوں کہ تم پر عذاب کا ایسا دن نہ آجائے جو سب پر چھا جائے گا اور اے میری قوم کے لوگو ! ماپ تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو ، ملک میں شر و فساد پھیلاتے نہ پھرو ، اگر تم میرا کہا مانو تو جو کچھ اللہ کا دیا تمہارے لئے بچ رہے اس میں تمہارے لئے بہتری ہے اور دیکھو میں تم پر کچھ نگہبان نہیں۔ لوگوں نے کہا اے شعیب ! کیا تیری یہ نمازیں تجھے یہ حکم دیتی ہیں کہ ہمیں آ کر کہے کہ ان معبودوں کو چھوڑ دو جنہیں تمہارے باپ دادا پوجتے رہے ہیں یا یہ کہ تمہیں اختیار نہیں کہ اپنے مال میں جس طرح کا تصرف کرنا چاہو کرو ؟ بس تم ہی ایک نرم دل اور راست باز آدمی رہ گئے ہو۔ شعیب نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو ! کیا تم نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اگر میں اپنے پروردگار یک طرف سے ایک دلیل روشن رکھتا ہوں اور اس کے فضل و کرم کا یہ حال ہو کہ اچھی روزی عطا فرما رہا ہو اور میں یہ نہیں چاہتا کہ جس بات سے تمہیں روکتا ہوں اس سے تمہیں تو روکوں اور خود اس کے خلاف چلوں ۔ میں اس کے سوا کچھ نہیں چاہتا کہ جہاں تک میرے بس میں ہے اصلاح حال ہوں اور اے میری قوم کے لوگو ! میری ضد میں آ کر کہیں ایسی بات نہ کر بیٹھنا کہ تمہیں بھی ویسا ہی معاملہ پیش آجائے جیسا قوم نوح کو یا قوم صالح کو پیش آچکا ہے اور قوم لوط تو تم سے کچھ دور نہیں۔ ” اور دیکھو اللہ سے معافی مانگو ، اس کی طر لوٹ جائو ، میرا پروردگار بڑا ہی رحمت والا بڑا ہی محبت والا ہے۔ لوگوں نے کہا اے شعیب ! تم جو کچھ کہتے ہو اس میں سے اکثر باتیں تو ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ تم ہم لوگوں میں ایک نہایت ہی کمزور آدمی ہو اگر تمہاری برادری کے آدمی نہ ہوتے تو ہم تمہیں سنگسار کردیتے تمہاری ہمارے سامنے کوئی ہستی نہیں۔ شعیب نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! کیا اللہ سے بڑھ کر تم پر میری برادری کا دبائو ہے ؟ اور اللہ تمہارے لئے کچھ نہ ہوا کہ اسے پیچھے ڈال دیا ؟ اچھا جو کچھ تم کرتے ہو میرے احاطہ علم سے باہر نہیں۔ اے میری قوم کے لوگو ! تم اپنی جگہ کام کئے جائو میں بھی سرگرم عمل ہوں بہت جلد معلوم کرلو گے کہ کس پر عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کرے گا اور کون فی الحقیقت جھوٹا ہے ، انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ اور پھر جب ہماری ٹھہرائی ہوئی بات کا وقت آپہنچا تو ایسا ہوا کہ ہم نے شعیب کو اور ان کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنی رحمت سے بچالیا اور جو لوگ ظالم تھے انہیں ایک سخت آواز نے آپکڑا پس جب صبح ہوئی تو اپنے اپنے گھروں میں اوندھے پڑے تھے۔ وہ اس طرح اچانک ہلاک ہوگئے گویا ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے۔ تو سن رکھو کہ قبیلہ مدین کے لئے بھی محرومی ہوئی جس طرح قوم ثمود کے لئے محرومی ہوئی تھی۔ “ (ہود 11 : 84 تا 95) ” اصحاب الایکہ نے رسولوں کو جھٹلایا ، یاد کرو جب کہ شعیب نے ان سے کہا تھا ، کیا تم ڈرتے نہیں ، میں تمہارے لئے ایک امانت دار رسول ہوں ، لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں ، میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے ، دیکھو ماپ تول کو ٹھیک کرو اور کسی کو کم تول ناپ کر نہ دو ، صحیح ترازو سے تولو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو ، زمین میں فساد نہ پھیلائو اور اس ذات کا خوف کرو جس نے تمہیں اور گزشتہ نسلوں کو پیدا کیا ہے۔ قوم کے لوگوں نے کہا تو محض ایک سحر زدہ آدمی ہے اور تو کچھ نہیں ہے مگر ایکا نسان ہم ہی جیسا اور ہم تو تجھے بالکل جھوٹا سمجھتے ہیں۔ اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے۔ شعیب نے کہا ، میرا رب جانتا ہے کہ جو کچھ تم کر رہے ہو انہوں نے اسے جھٹلا دیا آخر کار بادل والے دن کا عذاب (جس میں آگ بھی تھی) ان پر آگیا اور وہ بڑے ہی خوفناک دن کا عذاب تھا۔ “ (الشعرء 26 : 176 ، 189) ” اور طرف مدین کی ہم نے ان کے بھائی شعیب کو بھیاج اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو اور روز آخرت کے امیدوار رہو اور زمین میں مفسدبن کر زیادتیاں نہ کرتے پھرو مگر انہوں نے اسے جھٹلا دیا اور آخر کار ایک سخت زلزلے نے انہیں آ لیا اور وہ اپنے گھر میں پڑے کے پڑے رہ گئے۔ “ (العنکبوت 29 : 36 ، 37) شعیب (علیہ السلام) کی دعوت کو اختصار کے ساتھ بیان کردینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ قارئین کے ذہن میں کچھ نہ کچھ باتیں تو ضرور رہ جائیں۔ ۔ 1 سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی تین بویاں تھیں۔ سارہ ، ہاجرہ اور قطورا اور تینوں بیویوں میں اولاد بھی تھی۔ اس لئے آپ کی اولاد بنو سارہ ، بنو ہاجرہ اور بنو قطورا کے نام سے معروف ہوئی۔ شعیب (علیہ السلام) کا تعلق بنو قطورا کی شاخ سے تھا۔ قطورا کے ہاں چھ بیٹے پیدا ہوئے تھے جن میں ایک کا نام ” مدیان “ یا ” مدین “ تھا اور یہی شخص اپنے خاندان کے نام کا باعث ہوا اور قبیلہ مدین کے نام سے معروف ہوا۔ ۔ 2 ” اصحاب الایکہ ‘ ذ اور ” قوم مدین ‘ ذ ایک ہی قوم کے دو نام ہیں اس لئے شعیب (علیہ السلام) قوم مدین کے نبی ہوئے اور اصحاب الایکہ کے نبی بھی کہلائے۔ ۔ 3 شعیب (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو ، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ ماپ تول میں خا نت نہ کرو ، نہ تو حق سے زیادہ لو ، نہ حق سے کم دو اور ملک میں شر و فساد نہ پھیلاتے پھرو یعنی لوٹ مار اور ڈاکہ زنی نہ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ تم بھی اللہ کے عذاب کی لپیٹ میں آ جائو۔ ۔ 4 لوگوں نے کہا تم اپنے اللہ کی جتنی عبادت کرنی چاہو کرو لیکن کیا تمہاری نمازیں یہ بھی کہتی ہیں کہ دوسروں کو ان کی راہ سے ہٹائو ؟ اور پھر وہ بھی اس راہ سے ہٹائو جس پر ان کے باپ دادا چلتے آئے ہیں ؟ ۔ 5 ہم اپنے مال کے خود مالک ہیں اس لئے خود مختاری سے جس طرح چاہیں خچ کریں تم اپنے ماپ تول کی باتیں رہنے دو معلوم ہوتا ہے کہ ساری دنیا میں صرف آپ ہی ایک نیک اور خوش معاملہ آدمی ہو ؟ کیا سارے غلط ہیں اور تم ہی صحیح ہو ؟ ۔ 6 شعیب (علیہ السلام) نے کہا اگر اللہ نے مجھ پر علم و بصیرت کی راہ کھول دی ہو اور میں بتا رہا ہوں کہ تم ہلاکت کی طرف گامزن ہو تو بتلائو کہ میرا فرض نہیں کہ تم کو بتلائو کہ سلامتی کی راہ کیا ہے ؟ ۔ 7 تم میری ضد میں آ کر کیوں حق سے منہ موڑتے ہو ؟ میں ایسا تو نہیں کرتا کہ تمہیں ایک بات سے روکوں اور پھر خودوی کرنے لگوں میں تم کو وہی بات کہتا ہوں جس پر خود عمل کرتا ہوں۔ ۔ 8 تم میری تبلیغ سے بگڑتے کیوں ہو ؟ میں تم پر نگہبان بن کر تو آیا نہیں کہ تم کو مجبور کروں ، میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں جہاں تک میرے بس میں ہے اور میرے کام کو بننا ہے تو اللہ ہی کی مدد سے بننا ہے۔ میرا بھروسہ تو صرف اور صرف اسی پر ہے۔ ۔ 9 بحر قلزم کی جو شاخ عرب اور جزیرہ نما سینا کے درمیان سے گزرتی ہے اس کے کنارے مدین کا قبیلہ آباد تھا چونکہ یہ جگہ شام ، افریقہ اور عرب کے تجارتی قافلوں کا نقطہ انصال تھا اس لئے اشیاء تجارت کے مبادلہ کی بڑی منڈی بن گئی اور لوگ خوش حال ہوگئے اس لئے شعیب نے کہا کہ لوگو میں تم کو خوش حال پاتا ہوں۔ ۔ 10 لیکن جب لوگوں کے اخلاق فاسد ہوگئے تو کاروبار میں خیانت کرنے لگے اور ماپ تول کے انصاف سے نا آشنا ہوگئے اس لئے شعیب (علیہ السلام) نے خصوصیت کے ساتھ ان کو اس بات سے روکا۔ ۔ 11 لوگو کی بناء پر نزاع کیا بات تھی ؟ صرف یہ کہ تم خود جو چاہو عمل کرتے رہو لیکن تم دوسروں کو اپنی راہ پر چلانے کی دعوت کیوں دیتے ہو ؟ (آیت 122) ۔ 12 شعیب نے کہا اس لئے کہ یہی میرا کام ہے ، اسے میں کیسے چھوڑ دوں ؟ سچائی کی روشنی میرے سامنے ہے اس لئے میں اس کے اعلان سے باز نہیں رہ سکتا۔ ۔ 13 راہ حق میں ذاتی خصوصیت اور شخصی حسد سے بڑھ کر کوئی روک نہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ قوم کے سرداروں کو شعیب سے ذاتی خصومت ہوگئی تھی اس لئے شعیب (علیہ السلام) نے کہا کہ میری ضد میں آ کر پیام حق کے مخالف نہ ہو جائو۔ کہیں اللہ کے عذاب کے مستحق نہ ٹھہر جائو۔ ۔ 14 انسان انسانوں کا پاس کرتا ہے لیکن سچائی کا پاس نہیں کرتا ، وہ انسانوں کے خیال سے ایک بات چھوڑ دے گا لیکن اللہ کے خوف سے نہیں چھوڑے گا اس لئے لوگوں نے کہا کہ تجھے سنگسار کردینا تھا لیکن تیرے قبیلہ کے خوف سے ایسا نہیں کرسکتے۔ ۔ 15 قرآن کریم شعیب (علیہ السلام) کی زبان سے یہ اعلان کرتا ہے کہ ” قد جآء تکم بینۃ من ربکم “ کہ تمہارے رب یک رف سے ایک واضح دلیل آ چکی ہے اور یہ نہیں بتایا کہ وہ ” واضح دلیل “ کیا ہے ؟ بات بالکل صاف ہے کہ ” واضح دلیل “ وہ تعلیم ہے جو شعیب (علیہ السلام) قوم کو دے رہے ہیں۔ راست بازی اور عدالت یعنی عدل و انصاف کی راہ وہ ساری تعلیمات جو انہوں نے قوم کو دیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کے نزدیک انبیاء کرام کی تعلیم اور خود نبی کی اپنی ذات ” دلیل بینہ “ اور ” حجت تام “ ہے اور ضروری نہیں کہ اس کے ساتھ کوئی دوسری نشانی اور مصطلحہ معجزہ بھی لازم ہو کیونکہ نبی کی تعلیم اور اس کی اپنی ذات سارے معجزات سے بڑا معجزہ ہے۔ ۔ 16 بالکل ایک بڑی شناخت یہ ہے کہ نہ وہ اپنے لئے دلائل کی روشنی رکھتا ہے اور نہ ہی روشن دلائل کو برداشت کرتا ہے بلکہ جب اس کے سامنے روشنی آتی ہے تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور آنکھیں بند کرلیتا ہے اور اس کی موجوگدی کو بردات نہ کرتے ہوئے دلائل کا جواب غصہ ، دھمکی اور قتل سے دینے پر آمادہ ہوجاتا ہے تم انبیائے کرام اور ان کے پیروان حق کی زندگی اور پھر ان کے مقابل اور مخالف باطل پرستوں کی زندگی کا وازنہ کرو اور تاریخ کے ارواق سے واضح شہادت لو تو تم کو قدم قدم پر یہ حقیقت آشکارا اور روشن نظر آئے گی۔ داستان شعیب اس سے لبریز ہے۔
Top