Urwatul-Wusqaa - Ar-Ra'd : 26
اَللّٰهُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُ١ؕ وَ فَرِحُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ؕ وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا مَتَاعٌ۠   ۧ
اَللّٰهُ : اللہ يَبْسُطُ : کشادہ کرتا ہے الرِّزْقَ : رزق لِمَنْ يَّشَآءُ : جس کے لیے وہ چاہتا ہے وَيَقْدِرُ : تنگ کرتا ہے وَفَرِحُوْا : اور وہ خوش ہیں بِالْحَيٰوةِ : زندگی سے الدُّنْيَا : دنیا وَمَا : اور نہیں الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی فِي : مقابلہ (میں) الْاٰخِرَةِ : آخرت اِلَّا : مگر (صرف) مَتَاعٌ : متاع حقیر
اللہ جس کی روزی چاہتا ہے فراخ کردیتا ہے اور بعض کی نپی تلی کردیتا ہے لوگ دنیا کی زندگی پر شادمانیاں کرتے ہیں حالانکہ دنیا کی زندگی تو آخرت کی زندگی کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے محض تھوڑا سا برت لینا ہے
رزق کی تنگی و فراخی اللہ تعالیٰ کے قانون مشیت کے مطابق ہے 43 ؎ دنیا کی سب سے پرانی گمراہیوں میں سے ایک گمراہی یہ بھی ہے کہ جہلاء عقیدہ و عمل کے حسن و قبح دیکھنے کی بجائے امیری اور غریبی کو دیکھتے ہیں اور ان کے ہاں انسانوں کی قدر و قیمت ان کے مال و دولت اور اقتدار سے لگائی جاتی ہے۔ جن لوگوں کے پاس دولت کے انبار ہیں ‘ زمینوں کے قطعات کے قطعات اور علاقوں کے علاقے ہیں وہ بڑے لوگ ہیں اور اللہ میاں کے ہاں بھی وہ محبوب ہی سمجھے جاتے ہیں وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس یہ سب کچھ موجود ہے۔ کل ان کا گمان یہ تھا اور آج ہمارا بھی بالکل وہی ہے کہ جسے دنیا میں خوب سامان عیش مل رہا ہے وہ خدا کا محبوب ہے خواہ وہ کیسا ہی گمراہ اور بدکار ہو اور جو تنگ حال ہے وہ خدا کا مغضوب ہے خواہ وہ کتنا ہی نیک ہو۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کے وقت میں بھی اسی بنیاد پر قریش کے سرداروں کو نبی اعظم و آخر ﷺ کے ساتھیوں پر فضیلت دیتے تھے اور کہتے تھے کہ دیکھ لو اللہ کس کے ساتھ ہے ؟ اس پر متنبہ فرمایا گیا ہے کہ رزق کی کمی بیشی کا معاملہ اللہ کے ایک دوسرے ہی قانون سے تعلق رکھتا تھا جس میں بیشمار دوسری مصلحتوں کے لحاظ سے کسی کو زیادہ دیا جاتا ہے اور کسی کو کم یہ کوئی معیار نہیں ہے کہ جس کے لحاظ سے انسانوں کے اخلاق و معنوی حسن و قبح کا فیصلہ کیا جائے۔ انسانوں کے درمیان فرق مراتب کی اصل بنیاد اور ان کی سعادت و شقاوت کی اصل کسوٹی یہ ہے کہ کسی نے فکر و عمل کی صحیح راہ اختیار کی اور کس نے غلط۔ کس نے عمدہ اوصاف کا اکتساب کیا اور کس نے برے اوصاف کا مگر نادان لوگ اس کی بجائے یہ دیکھتے ہیں کہ کس کو دولت زیادہ ملی اور کس کو کم۔ وہ لوگ جو دنیا کی زندگی اور اس زندگی کی فراوانیوں پر خوش ہوگئے ان کو سمجھ لینا چاہئے کہ کیا ’ پدی اور کیا پدی کا شوربہ “ کس بات پر ریجھ گئے ہو ؟ آج جن زمینوں ‘ باغوں ‘ کارخانوں اور کو ٹھیوں کے تم مالک ہو۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ان کے مالک اور لوگ تھے اور تمہارا اس جگہ نام و نشان بھی موجود نہ تھا۔ مشیت الٰہی کی یہ کرشمہ سازی کہ آج ان ساری چیزوں پر تمہارا نام چل رہا ہے لیکن کتنی دیر ؟ حاشاء اللہ ! کہ آنے والے کل کو تمہارا نام و نشان بھی یہاں نہیں ہوگا اور یہ ساری کی ساری ملکیتیں بدل کر رکھ دی جائیں گی اور یہ سب کچھ ہوگا لیکن تم نہیں ہو گے ‘ کتنے بھولے ہو ‘ کتنے ناسمجھ ہو ‘ کتنے نافہم ہو ‘ کتنے بیوقوف ہو کہ ان چیزوں پر نازاں وفرحاں ہو جن کو ذرا بھی ثبات نہیں ہے نہ تمہاری اس زندگی کو اور نہ تمہاری ان ساری اشیاء کو جن پر تم شاداں وفرحاں ہو۔ لیکن تم نے کیا سمجھا کہ مرو گے تو یہ سب کچھ تمہارے ساتھ چلا جائے گا ؟ غور کرو کہ کتنے ہیں جو اس کو ساتھ لے گئے ؟ تم تو بالکل جس طرح خالی ہاتھ آئے خالی ہاتھ ہی یہاں سے لے جائے جائو گے۔ نہ یہاں لانے پر تم سے پوچھا گیا اور نہ یہاں سے لے جانے کے وقت تمہاری مرضی پوچھی جائے گی۔ پھر یہ درمیان میں تم کو جو وقت مل گیا تم اس پر انحصار کر کے کیسے فیصلے کرنے لگے تم نے اپنی کاغذ کی نائو کو کہاں بہا دیا اور تم کو ذ را خیال نہ آیا اب ڈوبی یا کب ڈوبی ؟ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں کیا ہے ؟ کچھ بھی نہیں 44 ؎ پھر غور کرو کہ اس دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں کیا چیز ہے ؟ اپنی اس دس ایکڑ زمین جس پر تم نازاں ہو ذرا اس خدا کی زمین کے ساتھ مقابلہ کر کے تو دیکھو کہ اس کی حیثیت کیا ہے ؟ پھر اس کروڑوں سال پرانی دنیا میں اپنی زندگی کے پچاس ساٹھ سال کا مقابلہ کرو کہ تم کو کتنی عمر ملی ہے پھر اس کائنات کی فانی زندگی کو اس آخرت کی زندگی کے ساتھ مقابلہ کر کے دیکھو جس کی طرف تم کو منتقل کردیا جائے گا اور تم بغیر حیل و حجت منتقل ہو جائو گے بالکل اس طرح جس طرح تمہارے باپ دادا منتقل ہوگئے اور وہی انتقال اشیاء جو کل تم ایک متوفی کالے رہے تھے آج وہی انتقال تمہاری وفات سے دوسرے لے رہے ہیں۔ اب بتائو کہ تمہارے پاس کیا ہے ؟ ہاں ہاں ! اگر عقل مند ہو تو سمجھ سوچ کر جواب دو کیا تم اس وقت وہ زمینیں ‘ کارخانے ‘ کو ٹھیاں اپنے ساتھ رکھتے ہو جن پر تمہیں اتنا ناز تھا کہ جن لوگوں کے پاس یہ تھیں تم نے انہیں انسان ہی نہ مانا اور ان کے باپ دادا کو محض اس لئے تسلیم نہ کیا اور ان کے پاس ان فانی چیزوں کی ریل پیل نہیں تھی اور تم اپنے آپ کو ہم چوما دیگرے نیست سمجھتے رہے اور باپ دادا والے بنے بیٹھے رہے اور تم نے اس حصے کی بڑ بڑ کو کتاب و سنت پر ترجیح دے لی۔ اب بتائو کہاں ہے تمہارا وہ حقہ اور کہاں ہے تمہاری وہ چاریاری اور کہاں ہیں تمہاری وہ ساری چیزیں جن کو تم اپنا سمجھتے تھے۔ فرمایا دنیا کا مال و متاع کیا ہے ؟ آخرت میں جا کر کچھ بھی نہیں۔
Top