Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 27
وَ الْجَآنَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ
وَالْجَآنَّ : اور جن (جمع) خَلَقْنٰهُ : ہم نے اسے پیدا کیا مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے مِنْ : سے نَّارِ السَّمُوْمِ : آگ بےدھوئیں کی
اور ہم ” جان “ کو اس سے پہلے جلتی ہوئی ہوا کی گرمی سے پیدا کرچکے تھے
تفسیر : 27۔ جن ‘ فرشتہ اور انسان کے متعلق مختصر الفاظ میں ذہن نشین رکھنے کی بات یہ ہے کہ کبھی تو جن اور فرشتہ دو مخالف قوتوں کے نام کے طور پر قرآن کریم میں مذکور ہیں اور کبھی جن اور انسان دو متقابل شخصیتوں کے طور پر بیان ہوئے ہیں ، اس لئے ان کو سمجھنے میں اکثر غلطی ہوئی ہے ، وہ جن جو فرشتہ کے مخالف قوت کے طور پر اس نام سے معروف ہے بلاشبہ اس میں تولد وتناسل نہیں اور وہ مکلف بھی نہیں بلکہ ملائکہ کے مقابلہ کی ایک طاقت کا نام ہے تاکہ دونوں میں امتیاز قائم کیا جاسکے ایک ان میں سے نیکی وخیر کی طاقت ہے یعنی ملک یا فرشتہ اور دوسری برائی اور شر کی طاقت ہے یعنی ابلیس یا شیطان اور وہ مخلوق جو ابو البشر کے مقابلہ میں بیان کی گئی وہ اس جنس انسان کی ایک الگ صنف ہے جس پر شیطان شیطان کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے ، کیونکہ اس میں نیکی وخیر بہت کم اور برائی وشر کی طاقت بہت قوی ہے لیکن اس کے باوجود وہ مکلف ہے اور اس میں توالد وتناسل بھی ہے انسانوں کے ساتھ اس کا میل جول ‘ آنا جانا ‘ بیٹھنا اٹھنا ‘ کھانا پینا اور رشتہ ناتا سب ہوتا ہے کیونکہ وہ اس جنس کی ایک دوسری صنف ہے ، جو صرف اپنے بعض اوصاف سے ہی پہنچانی جاتی ہے ۔ زیر نظر آیت میں جس مخلوق کا ذکر ہے وہ ‘ وہ مخلوق ہے جو فرشتہ کے مقابلہ کی طاقت وقوت ہے جو مجسمہ برائی اور شر ہے جس میں خیر وبھلائی کی کوئی بات نہیں پائی جاتی اور نہ ہی خارج میں اس کا کوئی مرئی وجود موجود ہے ، یہی وجہ ہے کہ اس جگہ اور بہت سی جگہوں پر بیان کرتے ہوئے اس کے ایسے نام تجویز کئے گئے ہیں جن کا فی نفسہ کوئی وجود نہیں بلکہ ان کو دیکھنے کیلئے کسی دوسری چیز کی طرف منسوب کرکے ہی دیکھا جاسکتا ہے جیسا کہ اس جگہ ارشاد فرمایا گیا کہ اس کو ہم نے گرم آگ یعنی آگ کی گرمی سے پیدا کیا جو اجزائے دخانیہ اور کثیفہ سے خالی ہیں اور اس لئے غایت لطافت سے مثل ہوا کے غیر مرئی تھے انسان کا ذکر جب آتا ہے تو اس شیطان کا ذکر خود بخود آجاتا ہے کیوں ؟ اس لئے انسان مجمسہ خیر وشر ہے یعنی دونوں قسم کے مادے اس کے اندر موجود ہیں اس لئے اس سے خیر اور شر دونوں کا امکان موجود ہے ، پھر اس کا یہ اعزاز ہے کہ جب اس کی اندرونی طاقت خیر کی ابھرتی ہے اور وہ شر کی طاقت وقوت پر قابو پا جاتی ہے اس لئے اس کا صدور اس سے نہیں ہونے دیتی تو یہ اس کی خوبی کے طور پر بیان ہوئی ہے اور اگر کہیں اس کی اندر کی دوسری طاقت یعنی شر اور برائی کی طاقت پکڑ جائے اور خیر وبھلائی اس کے سامنے جھک جائے تو اس کے شیطان یا ابلیس کی طرف منسوب کردیا جاتا ہے گویا وہ اس وقت عام انداز تخاطب انسان کی طرف نہیں بلکہ شیطان وابلیس کی طرف ہوتا ہے اگرچہ جس سے اس کا صدور ہوا ہے وہ مجسمہ انسان ہی کا ہے ۔ امثال اس کی واضح ہیں لیکن تشریح اس کی بہت لمبی ہے اور اس کا مکمل بیان جو قرآن کریم میں جگہ جگہ موجود ہے اس کو یکجا کرکے کسی نتیجہ پر پہنچا جاسکتا ہے ہم نے اس کے متعلق کچھ دبی زبان اور استعارات ومحاورات کا ذکر سورة الاعراف اور الانعام میں کردیا ہے اور تفصیل بیان انشاء اللہ العزیز سوہ جن میں عرض کریں گے اگر اللہ نے چاہا۔ ہاں ! ایک بات قابل غور ہے کہ قدوقامت میں انسان کو کائنات کی دوسری بڑی چیزوں سے کوئی نسبت ہی نہیں لیکن خالق کائنات نے بتایا کہ اس کے گردوپیش اور بالا وپست میں جو کچھ تمہیں نظر آرہا ہے یہ اس پیکر خاکی کیلئے ہے جسے انسان کہا جاتا ہے جو مجسمہ خیر وشر کا ہے ، لازمی طور پر دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت انسان کو اتنی اہمیت کیوں بخشی گئی آخر اس میں کونسا ایسا جوہر ہے جو زمین و آسمان ‘ مہر وماہ ‘ بحر وبر اور بادل اور ہوائیں سب اس کی خدمت گزاری میں سرگرم عمل ہیں اس لئے یہاں انسان کی حقیقت کو بیان کرکے اس کی اس خصوصیت کا ذکر کیا جا رہا ہے جس کے باعث اسے یہ بلند مقام نصیب ہوا لیکن اس چیز کو سمجھنے سے پہلے اس بات کو ضرور ذہن نشین کرلیجئے کہ قرآن کریم اللہ رب العزت کا کلام ہے ۔ یہ حق وصداقت کا نڈر ترجمان ہے ۔ اسے اپنی سچائی کے ثبوت کیلئے کسی فلسفی ‘ کسی سائنس دان وہ قدیم ہو یا جدید کی تائید کی ضرورت نہیں اور نہ ہی وہ ہمارے مفسرین کے بیان کا محتاج ہے کہ ان سب کی تحقیقات اور جستجو کے نتایج اس کے بیان سے ہم آہنگ ہوں اور انسانی پیدائش کا باب اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس کی دونوں قوتوں کو برابری کے طور پر بیان نہ کیا جائے اگر ایسا ہو تو وہ انسان کی پیدائش کا معاملہ نہیں ہوگا ، اس لئے ضروری ہوا کہ جب اس کی تخلیق کے مادہ ارض کا بیان ہوا جس کو صلصال اور حماء مسنوں کا جامہ پہنایا گیا تو اس کے مادہ آگ کا ذکر کرنا بھی ضروری اور لازم تھا اس لئے اس کو ’ ۃ ’ الجان “ اور ” نار سموم “ کا جامہ پہنا کر بیان کیا گیا تاکہ بات اچھی طرح واضح ہوجائے اور پھر جب ان قوی کو الگ الگ صنف میں بیان کیا تو ایک وصف کو مٹی سے تشبیہ دی کیونکہ مٹی ہی سے اس کا اصل خمیر لیا گیا تھا جس کو آگ کے ساتھ پکا کر صلصال یعیے بجنے والی مٹی بنایا گیا ظاہر ہے کہ اس پر وہ آگ کی طاقت وقوت صرف ہوئی جس نے اس کو بجتی مٹی میں تبدیل کردیا اور یہ گویا اس کی ایک حالت کا بیان ہے جب وہ آگ سے دوچار ہوچکی اور دونوں کو الگ الگ کرکے بھی بیان کیا گیا تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو ، جس طرح انسانی جسم کے اعضاء کے الگ الگ افعال ہیں اور ہم روزہ مرہ زندگی میں ان کو بیان بھی کرتے ہیں لیکن اگر انسانی جسم سے اس اعضاء کو الگ کرلیا جائے تو اس کا وہ فعل مطلق باقی نہیں رہتا لیکن ہم مجبور ہیں کہ بات کو سمجھنے کیلئے اپنے خیال ہی خیال میں جسم کے سارے حصوں کو الگ الگ کر کے افعال بنائیں اور سمجھائیں تو کوئی بیوقوف یہ نہیں کہے گا کہ جو وصف آپ نے بیان کیا ہے وہ اس کے دل کا ہے لہذا تم دل کو الگ کرکے اس کا وہ وصف ثابت کرو میں تب ہی مان سکتا ہوں ، اس طرح یہ وصف انسان ہی کے جسم کا ہے لیکن اس کو تفہیم کرنے کیلئے اس کا بیان الگ کیا گیا اور اس کو قوت خیر کے مقابلہ میں رکھ کر قوت شر کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور جب دونوں کا الگ بیان ہوچکا تو اب اس کے مجسمہ یعنی خیر وشر دونوں کا ذکر ہوگا اور اس سے پہلے کہ اس کا بیان ہو اس کی ایک قوت یعنی بھلائی کی قوت کو مخاطب کرکے بارن فرمایا جیسا کہ آنے والی آیت میں آرہا ہے ۔
Top