Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 88
لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ
لَا تَمُدَّنَّ : ہرگز نہ بڑھائیں آپ عَيْنَيْكَ : اپنی آنکھیں اِلٰى : طرف مَا مَتَّعْنَا : جو ہم نے برتنے کو دیا بِهٖٓ : اس کو اَزْوَاجًا : کئی جوڑے مِّنْهُمْ : ان کے وَلَا تَحْزَنْ : اور نہ غم کھائیں عَلَيْهِمْ : ان پر وَاخْفِضْ : اور جھکا دیں آپ جَنَاحَكَ : اپنے بازو لِلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے لیے
اور یہ جو ہم نے ان میں سے کئی قسم کے لوگوں کو بہرہ مند کردیا ہے تو تم انہیں نہ دیکھو اور نہ ایسا ہو کہ ان کی حالت پر بیکار غم کھانے لگو ، تم مومنوں کے لیے اپنے بازو پھیلا دو
جن لوگوں کو ہم نے دنیوی فائدہ سے نوازا ہے انکی طرف آپ نہ دیکھیں : 88۔ یہ چند روزہ عیش اور وہ بھی تلخیوں سے ملی ہوئی کونسی ایسی چیز ہے جسے دولت عظیم سمجھ لیا جائے ؟ نعمت عظمی کیا ہے ؟ سورة الفاتحہ فرمایا اس لازوال اور نہ فنا ہونے والی دولت کے مقابلہ کی کیا قیمت رہ جاتی ہے کہ آپ اس کی طرف نظر التفات کریں جس کے پاس کوہ نور کا ہیرا موجود ہو وہ بھی کبھی کوڑیوں کی طرف دیکھتا ہے خواہ ان کوڑیوں کے ڈھیر ہی کیوں نہ لگے ہوں ، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا ہے ” جس شخص کو دولت قرآن کریم بخشی گئی اور اس نے کسی دنیا دار کو دیکھا اور اس کے سیم وزر کو نعمت عظمی یعنی قرآن کریم سے افضل خیال کیا تو اس نے بڑی بےانصافی کی اس نے عظیم المرتبت چیز کو حقیر جانا اور ایک حقیر چیز کو بڑا خیال کیا ۔ “ آج فی زماننا عوام تو عوام ہیں اور ان کو کالانعام کہہ کر غصہ ٹھنڈا کرلیا جاسکتا ہے لیکن خواص وعلماء کا کیا حال ہے ؟ اور پھر خصوصا وہ علماء وفضلاء جو مذہبی وسیاسی پارٹیوں کے امیر وصدر بنائے گئے ہیں وہ اس دنیوی مال و دولت پر کس قدر ریجھ چکے ہیں اور اپنی اپنی گروہ بندیوں سے کیا کیا فوائد انہوں نے اس فانی دنیا کے حاصل کئے ہیں کہ جب ان کا جی چاہتا ہے جس حکمران کے پاس وہ چاہتے ہیں اپنی صوابدید کے مطابق اپنی پوری پاڑٹی کے عوام کو بیچ دیتے ہیں ، اور انکی قیمت وصول کرلیتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو مختلف الیکشن کے مواقع پر مختلف لوگوں کے ہاتھوں خود بھی بک چکے ہیں اور عوام کو بھی بیچ چکے ہیں اور عوام ہیں کہ وہ جنت حاصل کرنے کیلئے اپنی پارٹی کے علماء کرام کے سامنے اونچی سانس لینے کو تیار نہیں ۔ عام انسانوں کیلئے نبی رحمت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی کتنا مفید اور طمانیت بخش ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ” انظروا الی من ھو اسقل منکم ولا تنظروا الی من ھو فوقکم فھو اجدر ان لا تزدروا نعمتہ اللہ علیکم “ ” اس کی طرف دیکھو جو تم سے کم تر ہے اپنے سے برتر کی طرف نہ دیکھو اس طرح جو نعمت اللہ تعالیٰ نے تم پر فرمائی ہے تم اس کو حقیر جاننے کی غلطی سے محفوظ رہو گے ۔ “ پھر فرمایا کہ اے پیغمبر اسلام ! آپ کو اور آپ کے توسط سے سارے مذہبی راہنماؤں کو زیر نظر آیت کے تحت غیظ وغم کی ان دونوں صورتوں سے نظر کرنے کی ممانعت کردی گئی ہے اور آپ کو بتایا جارہا ہے کہ آپ کی فکر و شفقت کے حمل صحیح یہی اہل زبان ہیں اور یہی نفع بھی حاصل کریں گے ان پر غم وتاسف بہ کیجئے کہ یہ کافر ومعاند سرے سے آپ کی شفقت وکفر مصلحت کے حمل ہی نہیں ۔ ” واخفض جناحک “ محاورہ ہے بازو جھکا دے یعنی شفقت ونرمی اور نرم خوئی سے ان کے ساتھ پیش آئیے کیونکہ آپ کی شفقت اور نرم مزاجی کے مستحق سراسر مومنین ہی ہیں کوئی دوسرا نہیں اور دنیا کی دولت ومال بالکل عارضی چیزیں ہیں آخرت کے مقابلہ میں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ دو باتیں اس آیت میں تعلیم کی گئیں ، کہ کافروں سے اعراض کا حکم دیا گیا اور مومنوں کی طرف خصوصی توجہ فرمانے کا ارشاد فرمایا گیا کہ اہل ایمان کیلئے اپنے پروں کو نیچے کریں اور ان پروں سے کوئی نئی بحث نہ چھیڑ دی جائے ان پروں کے لفظ میں جو شیرینی اور مٹھاس رکھی گئی ہے اس کو صحیح معنوں میں اہل دل ہی سمجھ سکتے ہیں جن کی کھوپڑی میں بھس نہیں بھرا بلکہ عقل وفکر وافر بھر دی ہے اور وہ صحیح معنوں میں نبوت و رسالت کا مقام سمجھتے ہیں ۔
Top