Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 120
اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًا١ؕ وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم كَانَ : تھے اُمَّةً : ایک جماعت (امام) قَانِتًا : فرمانبردار لِّلّٰهِ : اللہ کے حَنِيْفًا : یک رخ وَ : اور لَمْ يَكُ : نہ تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
بلاشبہ ابراہیم (علیہ السلام) ایک پوری امت تھا اللہ کے آگے جھکا ہوا ، تمام راہوں سے ہٹا ہوا اور ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھا
ابراہیم (علیہ السلام) گویا ایک پوری امت تھا اللہ تعالیٰ کی طرف جھکا ہوا : 134۔ ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر یہ اچانک کیسے آگیا ؟ اچانک نہیں آیا بلکہ اپنی صحیح نسبت اور ضرورت ہی کے مطابق اس کا ذکر کیا گیا ۔ مشرکین عرب اپنے سارے ادہام و خرافات کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف منسوب کرتے تھے اور زیر نظر آیت میں اس نسبت کی تغلیط کی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ انکی راہ تو وہی راہ تھی جس کی طرف نبی اعظم وآخر ﷺ دعوت دے رہے ہیں ۔ اس آیت سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ یہ گمراہی آج سے نہیں بلکہ بہت پرانی ہے کہ لوگ باتیں خود گھڑتے ہیں اور اپنے بزرگوں کی طرف ان کی نسبت کرکے چلا دیتے ہیں اور پھر کیا ہوتا ہے کہ لوگ اندھا دھند انکے پیچھے لگ جاتے ہیں اور کوئی نہیں سوچتا کہ جن بزرگوں کی طرف ان باتوں کی نسبت کی جارہی ہے آیا وہ ایسی بات کر بھی سکتے تھے یا نہیں ؟ اور آج بھی بیسیوں ایسی باتیں ہماری قوم میں موجود پائی جاتی ہیں جن کی نسبت بزرگوں کی طرف کی گئی ہے اور ان بزرگوں کی تعلیم ان باتوں کی کھلی تردید کرتی ہے لیکن لوگ ہیں کہ اندھا دھند کئے جا رہے ہیں اور ان کو کوئی پکار پکار کر کہتا رہے کہ یہ سراسر جھوٹ ہے تو وہ کبھی کان دھرنے کے لئے تیار نہیں ، یہ نذر اللہ کے ساتھ نیاز حسین کیا ہے ؟ شیخ عبدالقادر پیران پیر کے نام کی گیارہویں شریف کیا ہے ؟ امام جعفر صادق کے کو نڈے کیا ہیں ؟ خظر خواج کی دعوت کیا ہے ؟ بی بی فاطمہ کی صحنک کیا ہے ؟ جمعرات کی چراغی کیا شے ہے ؟ ” فرمایا کہ بلاشبہ ابراہیم اپنی شخصیت میں ایک پوری امت اللہ کے آگے جھکا ہوا ‘ تمام بناوٹی راہوں سے ہٹا ہوا اور ہرگز مشرکوں سے نہ تھا ۔ “ تو پھر اے مشرکو ! تم اپنے آپ کو طریق ابراہیمی کا پیروکار کس منہ سے کہتے ہو ؟ ہم نے تو اپنے پیغمبر اور آخری نبی محمد رسول اللہ ﷺ کو ان کے طریقہ پر چلنے کی ہدایت کی ہے اور جو طریقہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تھا وہی طریقہ ہمارے نبی ورسول محمد رسول اللہ ﷺ کا ہے اور وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تو ایک طرف کا ہو کر رہنے والا تھا جس نے ساری زندگی کبھی مشرکوں کا ساتھ نہیں دیا حتی کہ انہوں نے اپنے والد کو خیر باد کہہ دیا جب کہ وہ شرک کا پیچھا چھوڑنے والا نہ ہو اور اپنے وطن اور عزیز و اقارب کو چھوڑ کر نکل گیا اور کبھی مشرکوں کا ساتھ نہ دیا پھر تم عجیب ہو کہ شرک بھی کرتے ہو اور ابراہیمی طریقہ کے پیرو بھی کہلاتے ہو اور یہی حال آج کل ہمارے حنفی بھائیوں کا ہے اور ” سنی “ کہلانے والوں کا کہ سنتوں کا نام لے کر بدعتوں کی اشاعت میں دن رات مصروف ہیں اور نئی سے نئی بدعات خود ایجات کرتے ہیں رسولوں اور ولیوں کے گستاخ دوسروں کو قرار دیتے ہیں کسی قسم کا جہاد کرنے کے لئے تیار نہیں لیکن لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہونے کے لئے ہر وقت تیار کھڑے ہیں ۔
Top